کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 787
یہ تفسیر قاہرہ مصر میں طبع ہو چکی ہے۔راقم الحروف کے پاس یہ تفسیر موجود ہے اور وہ اس سے استفادہ کر چکا ہے۔اس کا مولف لکھاری تو ہے،مگر محقق اور منقح نہیں۔اس نے یہ چار جلدوں میں ضخیم تفسیر لکھی،اس نے امام رازی اور ابن عادل رحمہما اللہ وغیرہ سے یہ تفسیر اخذ کی ہے۔ سکردان: یہ ابن ابی حجلہ احمد بن یحییٰ التلمسانی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۷۶؁ھ) کی تالیف ہے۔اس میں ایک مقدمہ اور سات ابواب ہیں۔ساتواں باب قرآن مجید کے بعض الفاظ کی تفسیر میں ہے۔باقی کتاب ترکی علاقوں اور بادشاہوں کے احوال وغیرہ پر مشتمل ہے۔ سواطع الإلہام: یہ فاضل ابو الفیض الہندی المتخلص بہ فیضی رحمہ اللہ کی تفسیری تالیف ہے۔تفاسیر کے درمیان یہ ایک منفرد کتاب ہے،کیونکہ مولف نے شروع قرآن سے لے کر آخر تک آیات کی تفسیر ایسے کلمات کے ساتھ کی ہے،جن کے تمام حروف مہمل یعنی بغیر نقطوں کے ہیں۔جب یہ تالیف مکمل ہوئی تو میر صدرالدین المعمائی نے سورۃ الاخلاص میں اس کی تاریخ پا لی اور وہ ۱۰۰۲؁ھ ہے۔[1] انتھٰی ما في کشف الظنون۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کتاب دو جلدوں میں ایک متوسط تفسیر ہے،جو خط نسخ میں لکھی گئی ہے۔اس کا دیباچہ مولف کے اپنے احوال اور اس کے علاوہ بادشاہِ ہند اکبر کی مدح میں بڑی لمبی مہمل عبارت کے ساتھ لکھا گیا ہے۔اس کے آخر پر اپنے ہم عصر لوگوں کی عربی و فارسی تواریخ کو بھی شامل کر دیا ہے۔اپنے دور کے علما و فضلا کی تقاریظ کو نقل کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مولف بادشاہ کا وزیر تھا۔اکبر آباد معروف بہ آگرہ اس کی جائے سکونت تھی،اس کا بڑا بھائی ابو الفضل تھا۔اکبر بادشاہ کے الحاد کا سبب انہی دو بھائیوں کی صحبت کو اختیار کرنا تھا۔اس کے باوجود یہ تفسیر اپنی ذات کی حد تک اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ عربیت اور ادب پر کتنی گرفت اور قدرت رکھتا تھا۔میر غلام علی آزاد بلگرامی نے’’مآثر الکرام تاریخ بلگرام‘‘ میں فیضی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شیخ فیضی کی فضیلت کی دلیل’’سواطع الإلہام‘‘ اس کی بغیر نقطوں کی تفسیر ہے۔گذشتہ ہزار سال میں کسی کو اس سے زیادہ مستعدی اور ہوشیاری میسر نہیں آسکی۔پھر طرفہ یہ کہ اس نے اتنے مشکل کام کو دو ہی سال میں ابتدا سے انتہا تک مکمل کر دیا۔میر حیدر معمائی کاشی نے تفسیر سورۃ الاخلاص کے اِتمام کی تاریخ دریافت کر کے دس ہزار روپے انعام وصول کیا۔فضلاے عصر نے