کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 770
ملا کاتب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ دورِ حاضر میں مصحف پر نقطے اور اعراب لگانا واجب ہے۔مگر غیر مصحف میں یہ اس وقت واجب ہیں جب التباس کا ڈر ہو،کیونکہ نقطوں اور اعراب کا لگانا التباس کا خاتمہ کرنے کے لیے ہے۔جہاں پر التباس کا خطرہ نہ ہو،وہاں اس کو نہ لگانا ہی بہتر ہے۔خصوصاً جب مکتوب الیہ ان دونوں کے بغیر پڑھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ بیان کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن طاہر کے سامنے ایک خط پیش کیا گیا۔اس نے دیکھ کر کہا کہ یہ کتنا خوب صورت خط ہے! اگر اس پر شونیز (کلونجی) کی کثرت نہ ہو (یعنی اس پر نقطے نہ ہوں)۔بعض نے کہا ہے کہ تحریر میں کثرت سے نقطے مکتوب الیہ پر (جہالت کی) بدگمانی کرنے کے مترادف ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نقطوں سے ضرر لاحق ہو جاتا ہے۔چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ جعفر متوکل نے اپنے عمال میں سے ایک کی طرف خط لکھا: ’’أن أحص من قبلک من الذمیین وعرفنا بمبلغ عددھم‘‘ [ذمیوں کو شمار کر کے ہمیں ان کی تعداد سے آگاہ کرو] ہوا یہ کہ تحریر میں لفظ’’أحص‘‘ کی حا پر کاتب سے نقطہ لگ گیا۔(’’أحص‘‘ کامعنی ہے شمار کرو،مگر جب یہ لفظ’’أخص‘‘ بنا تو مطلب ہوا خصی کر دو) خط وصول کر کے اس عامل نے سارے ذمیوں کو اکٹھا کیا اور ان کو خصی کر دیا۔دو آدمیوں کے سوا سارے ذمی اس آپریشن میں مر گئے۔[اک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا] البتہ ان حروف پر جن میں تصحیف (تبدیلی) کا خطرہ نہ ہو،جیسے یا،نون،قاف اور فا مفردات کی صورت میں۔بہ ہرحال اس میں بھی اختیار ہے۔ اس کے بعد ابو الخیر رحمہ اللہ نے حروفِ مفردہ کی املا سے متعلق علوم کا ذکر کیا ہے۔بسائطِ حروف کی ترکیبِ اشکال کا علم بیان کیا ہے،کیونکہ حروف کا جیسے حالِ بساطت میں حسن ہوتا ہے،ایسے ہی حالِ ترکیب میں بھی تناسبِ شکل کا ایک خاص حسن ہوتا ہے۔اس علم کے اصول امورِ استحسانیہ ہیں،جو اشکال میں نسبتِ طبیعیہ کی رعایت کی طرف لوٹتے ہیں۔یہ ہندسیات سے ماخوذ ہے،اس حسن کی دو قسمیں ہیں : 1۔حروف میں حسنِ تشکیل،یہ پانچ چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے: