کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 77
((اَلْمِرَائُ فِيْ الْقُرْآنِ کُفْرٌ))[1] [قرآن کے بارے میں اختلاف کرنا اور جھگڑنا کفر ہے] دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ((لَا تُمَارُواْ فِيْ الْقُرْآنِ فَإِنَّ الْمِرآئَ کُفْرٌ))[2] [قرآن میں جھگڑا نہ کرو،یقینا اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے] فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ [المؤمن: ۴] [اللہ کی آیات میں جھگڑا نہیں کرتے مگر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا] علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے امام ہروی رحمہ اللہ کی متابعت میں کہا ہے: ’’المماراۃ المجادلۃ علیٰ مذہب الشک و الریبۃ‘‘ [ممارات کا مطلب ہے شک و شبہے کی بنا پر جھگڑا کرنا] ابو عبید رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک مذکورہ بالا حدیث سے مراد تاویل میں اختلاف نہیں ہے،بلکہ لفظ میں اختلاف مراد ہے۔ایک کہتا ہے یوں پڑھو،دوسرا کہتا کہ نہیں یوں پڑھو۔بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد اہلِ کلام،اہلِ اہوا اور اہلِ بدع کے طریقے پر آیاتِ قدر وغیرہ میں جدال ہے نہ کہ احکامِ حلال و حرام میں اختلاف کرنا۔ ابن ماجہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے: ((مَنْ جَحَدَ آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَقَدْ حَلَّ ضَرْبُ عُنُقِہِ))[3] [مسلمانوں میں جس کسی نے کتاب اللہ کی کسی آیت کا انکار کیا تو اس کی گردن مارنا حلال ہو گیا] میں کہتا ہوں کہ لفظِ’’مراء‘‘ عام ہے،ان تمام معانی سے،جو اس لفظ کے لغوی معنی ٹھہریں،
[1] سنن أبي داؤد،رقم الحدیث (۴۷۰۳) مسند أحمد (۲/۳۰۰) [2] مسند أحمد (۴/۱۶۹) [3] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۵۳۹) اس کی سند میں’’حفص بن عمر عدنی‘‘ ضعیف ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ،رقم الحدیث (۱۴۱۶)