کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 768
پھر اسحاق بن ابراہیم تیمی منظرعام پر آیا،اس کی کنیت ابو الحسین تھی۔وہ مقتدر اور اس کی اولاد کا معلم تھا۔وہ اپنے دور کا سب سے بڑا ماہر کاتب تھا۔خط پر اس کا ایک رسالہ ہے،جس کا نام اس نے’’تحفۃ الوامق‘‘ رکھا۔ وزرا کے کاتبین میں سے ایک ابو علی محمد بن علی بن مقلہ (المتوفی: ۳۸۲؁ھ) ہے۔یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے خطِ بدیع لکھا۔اس کے بعد صاحبِ خط بدیع علی بن ہلال معروف بہ ابن البواب (المتوفی: ۴۱۳؁ھ) منظر عام پر آیا۔متقدمین میں کوئی ایسا کاتب نہیں ہے،جو خط میں اس کے پائے کا یا اس کے قریب ہو۔اگرچہ کوفی خطوط میں سے اس طریقۂ خط کا ناقل ابن مقلہ ہے،اسی نے اس خط کو اتنا نمایاں کیا،لہٰذا اسے اس معاملے میں سبقت کی فضیلت حاصل ہے اور پھر یہ کہ اس کا خط بھی خوب صورت تھا،لیکن ابن بواب نے اس کے طریقۂ خط کو منقح اور مہذب کیا اور اسے پوری حلاوت و چمک بخشی۔کتابت میں اس کا استاد محمد بن اسد الکاتب ہے۔ پھر ابو الدر یاقوت بن عبداللہ رومی حموی (المتوفی: ۶۲۶؁ھ) منظر عام پر آیا۔اس کے بعد ابو المجد یاقوت بن عبداللہ رومی مستعصمی (المتوفی: ۶۹۸؁ھ) نمودار ہوا،اس کی شہرت آفاق میں پھیل گئی۔اس کے مقام و مرتبہ کو پانا تو دور کی بات ہے،لوگوں نے اس کے قریب پہنچنے سے بھی عاجزی کا اعتراف کر لیا۔اس کے بعد متاخرین کے درمیان درجِ ذیل شہرت یافتہ چھے خطوں نے شہرت پائی: ۱۔ثلث،۲۔نسخ،۳۔تعلیق،۴۔ریحان،۵۔محقق،۶۔رقاع۔ ان چھے خطوں کے ماہرین میں درج ذیل لوگوں کے نام آتے ہیں : 1۔ابن مقلہ،2۔ابن بواب،3۔یاقوت،4۔عبداللہ ارغون،5۔عبداللہ صیرفی،6۔یحییٰ صوفی،7۔شیخ احمد سہروردی،8۔مبارک شاہ سیوفی،9۔مبارک شاہ قطب،10۔اسداللہ کرمانی۔تلک عشرۃ کاملۃ۔ بلادِ رومیہ کے مشاہیر کاتب درج ذیل ہیں : 1۔حمداللہ بن شیخ اماسی،2۔اس کا لڑکا ددہ چلپی،3۔جلال،4۔جمال،5۔احمد قرۂ حصاری،6۔اس کا شاگرد حسن،7۔عبداللہ قریمی وغیرہ۔