کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 763
سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے عربی خط لکھا،وہ حمیر بن سبا ہے،جب کہ سہیلی رحمہ اللہ’’کتاب التعریف والأعلام‘‘ میں یوں رقم طراز ہے کہ اس سلسلے میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جو ہم کو ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی سند سے ملی ہے،جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کیا گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَوَّلُ مَنْ کَتَبَ بِالْعَرَبِیَّۃِ إِسْمَاعِیْلُ علیہ السلام)) [1] [سب سے پہلے جس نے عربی زبان لکھی وہ اسماعیل علیہ السلام ہیں ] ابو الخیر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تمام امتوں کی کتابتیں اور تحریریں بارہ ہیں : ۱۔عربی،۲۔حمیری،۳۔یونانی،۴۔فارسی،۵۔سریانی،۶۔عبرانی،۷۔رومی،۸۔قبطی،۹۔بربری،۱۰۔اندلسی،۱۱۔ہندی،۱۲۔چینی۔ چناں چہ ان میں سے پانچ کتابتیں مضمحل ہوگئیں اور ان کے جاننے والے ختم ہو گئے اور وہ یہ ہیں : ۱۔حمیری،۲۔یونانی،۳۔قبطی،۴۔بربری،۵۔اندلسی۔تین ایسی ہیں جن کااستعمال ان کے ملکوں میں تو ہوتا ہے،مگر بلادِ اسلام میں ان کے جاننے والے معدوم ہیں اور وہ یہ ہیں : ۱۔رومی،۲۔ہندی،۳۔چینی۔اب صرف چار کتابتیں باقی رہیں،جو بلادِ اسلام میں مستعمل ہیں اور وہ یہ ہیں : ۱۔عربی،۲۔فارسی،۳۔سریانی،۴۔عبرانی۔انتھیٰ۔ مگر ابو الخیر رحمہ اللہ کامذکورہ بالا کلام چند وجوہ کی بنا پر محلِ نظر ہے: 1۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان کو مذکورہ بالا عدد میں محدود کرنا ہی صحیح نہیں ہے،کیونکہ آج کی دنیا میں امتوں کے درمیان جو اَقلام (کتابتیں) متداول ہیں،ان کی تعداد مذکورہ تعداد سے زیادہ ہے سوائے ان کے جو ناپید ہو چکی ہیں۔جو شخص بھی یونانی اور قبطی (لاطینی) زبان میں لکھی گئی قدما کی کتابوں اور اصحاب علمِ حرف کی کتابوں،جن میں مصنفین نے اقلام و خطوط کی انواع کو بیان کیا ہے،کا مطالعہ کرے گا،اسے ہماری مذکورہ بات کی صداقت کا علم ہو جائے گا۔بہ ہرحال کتابتوں کا مذکورہ بالا حصر اس کے دعوے دار کی کم علمی کی غمازی کرتا ہے۔ 2۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں سے پانچ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ مضمحل ہو گئی ہیں،بھی درست نہیں