کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 750
کی لفظی یامعنوی مناسبت کو سمجھ نہیں پائے اور اگر انھوں نے ان کو نقل کیا بھی ہے تو آخری امر کے طور پر اور وہ بھی تمریض کے صیغے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مگر ہماری اس تفسیر میں اس ہستی سے ثابت شدہ معانی پر اعتماد کیا گیا ہے،جس ہستی پر کتاب نازل کی گئی ہے۔ہم نے اس میں کچھ درج کرنے سے پہلے کامل تتبع کیا ہے۔چنانچہ میں اس مسئلے میں روایت پر نقد کرنے والے شیخ عماد الدین بن کثیر رحمہ اللہ کے نقل پر اعتماد کرتا ہوں۔انھوں نے اپنی اس تفسیر میں روایت کی تصحیح میں بہت تحقیق کی ہے اور اس کی کمزوری کو خوب بیان کیا ہے۔اگر میں نے ان کی اور محی السنہ بغوی رحمہ اللہ کی تفسیر میں کوئی اختلاف پایا تو میں نے ان لوگوں کی کتابوں کا خوب تتبع کیا،جن کو تصحیحِ روایت میں ید طولیٰ حاصل ہے۔ پھر میں نے ان روایات کو درج کیا جن کو انھوں نے راجح قرار دیا،لیکن میں ابن کثیر رحمہ اللہ کے کلام پر اعتماد کرتا ہوں،کیونکہ وہ تصحیح کے معاملے میں متاخر اوراس کی طرف کافی توجہ کرنے والے ہیں۔جب کہ محی السنہ رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اس امر کے در پے بھی نہیں ہوئے،بلکہ وہ تو اس میں وہ معانی اور حکایات ذکر کرتے ہیں،جن کے ضعیف بلکہ موضوع ہونے پر اہلِ علم نے اتفاق کیا ہے۔ رہی وہ احادیث جو ہماری تفسیر میں مذکور ہیں،ان میں سے اکثر صحاح ستہ کی روایات ہیں۔نیز آپ کو اس کے حاشیے پر ان کی تخریج بھی مل جائے گی۔اس میں ہم نے جو معنی’’أو‘‘ کے صیغے کے ساتھ ذکر کیا ہے تو وہ معنی سلف کا کیا ہوا ہے اور جو معنی’’قیل‘‘ کے ساتھ بیان ہوا ہے تو وہ اکثر متاخرین کی مخترعات سے تعلق رکھتا ہے،جن کو پانے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔ جہاں تک وجہ اعراب کا تعلق ہے تو میں نے صرف زیادہ ظاہر ہی کا انتخاب کیا ہے اور جہاں میں نے دو یا زیادہ وجہیں ذکر کی ہیں تو وہ دراصل ایک نکتے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔میں نے تنقیحِ کلام میں بہت جد و جہد سے کام لیا ہے۔ رہے میری اس کتاب کے مآخذ تو وہ المعالم،الوسیط،تفسیر ابن کثیر،تفسیر نسفی،تفسیر الکشاف مع اس کی شروح کے،الکشف،شرح المحقق التفتازانی اور تفسیر بیضاوی ہیں۔آپ کو کم ہی کوئی ایسی آیت ملے گی،مگر میں نے اشکال کو رفع دفع کرنے کے لیے اس قول کی تحقیق کے لیے اس کی تفسیر میں مختصر عبارت کے ساتھ اشارہ کر دیا یا میں نے اکثر جگہوں میں لطیف اشارہ کرتے ہوئے حاشیے میں اس کی