کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 75
7۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أَہْلُ الْقُرْآنِ أَہْلُ اللّٰہِ وَخَاصَّتُہُ))[1] (رواہ ابن ماجہ) [قرآن والے ہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں ] ابو عبدالرحمن سلمی تابعیِ جلیل نے عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث سن کر کہا تھا کہ اس حدیث نے مجھے اس جگہ مسجد میں بٹھایا ہوا ہے۔[2] وہ جامع کوفہ میں لوگوں کو قرآن سکھاتے تھے،حالانکہ وہ بہت بڑے عالم تھے اور لوگوں کو ان کے علم کی طرف بڑی حاجت تھی،لیکن انھوں نے چالیس برس قرآن کی تعلیم دی۔سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما نے بھی انہی سے قرآن پڑھا تھا۔سلف صالحین کسی شے کو قراء تِ قرآن کے برابر نہ جانتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں روزہ رکھنے سے ضعیف ہو جاتا ہوں،اس لیے تلاوتِ قرآن مجھ کو محبوب تر ہے۔[3] غرض کہ قراء تِ قرآن نیکی کے کاموں میں سے افضل کام ہے اور عبادات میں سے اکمل عبادت ہے۔ 8۔تفسیر ابن عادل میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر حتمی طور پر طے شدہ عذاب بھیجنا چاہتا ہے،لیکن جب وہ سنتا ہے کہ مکتب میں بچے ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ چالیس سال تک ان سے عذاب اٹھا لیتا ہے۔[4] 9۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مرفوعاً بیان کیا ہے: ((إِنَّ الَّذِيْ لَیْسَ فِيْ جَوْفِہِ شَیْیٌٔ مِنَ الْقُرْآنِ کَالْبَیْتِ الْخَرِبِ))[5] (رواہ الترمذي) یعنی وہ دل جس میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہیں ہے،وہ ویران گھر کی طرح ہے۔
[1] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۱۵) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۷۳۹) [3] شعب الإیمان للبیہقي (۲/۳۵۴) [4] یہ حدیث ضعیف اور موضوع ہے۔دیکھیں : کشف الخفاء للعجلوني (۶۷۲) [5] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۹۱۳) اس کی سند میں’’قابوس بن ابی ظبیان‘‘ ضعیف ہے۔