کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 742
اور دعوی کرتے کہ ان کے اسلاف کا ان پر اتفاق رہا ہے،اس لیے یہ قطعی دلیل ہے۔چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار جو انھوں نے کیا،اس کی سند سلف کے اقوال کے سوا اور کوئی نہیں تھی۔یہی حال دیگر احکام کا تھا۔تورات کے احکام پر عمل کرنے میں تساہل اور بے پروائی اور بخل و حرص کا سبب نفسِ امارہ کا اقتضا تھا۔نفسِ امارہ بلا شبہہ ہر شخص پر غالب ہے۔إلا ما شاء اللّٰہ۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ﴿اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ﴾ [یوسف: ۵۳] [بے شک نفس تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے،مگر جس پر میرا رب رحم کرے] اس رذیلت نے اہلِ کتاب میں ایک اور رنگ پیدا کیا تھا۔وہ یہ کہ تاویلِ فاسد سے وہ اپنے مطلب کی بات کو صحیح ثابت کرنے پر زور لگاتے اور اسے شرعی مسئلے کی صورت میں ظاہر کرتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو بعید از قیاس کہنے کا سبب وہ اختلاف ہے جو انبیا کی عادات و احوا ل میں پایا جاتا ہے،مثلاً کسی کا زیادہ نکاح کرنا یا کسی کا کم۔اسی طرح دوسرے امور میں اختلاف اور شریعتوں میں اختلاف،انبیا کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے طریقے کا اختلاف۔ان کے علاوہ ایک یہ سبب بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں مبعوث ہوئے،حالانکہ تمام انبیا بنی اسرائیل سے ہوتے رہے۔ نبوت دراصل نفوسِ عالم کی اصلاح اور ان کی عادات و عبادات کو مہذب بنانے کے لیے ہوتی ہے،وہ نیکی اور بدی کے اصول ایجاد نہیں کرتی۔عبادت نظامِ معاشرت اور نظامِ تمدن میں ہر قوم کی مخصوص عادتیں (یا رسمیں) ہوتی ہیں۔جب اس قوم میں کوئی نبی آتا ہے تو یک بارگی ان کی ساری رسمیں ختم کر کے ان کی جگہ دوسری نئی رسمیں نہیں لے آتا،بلکہ وہ رسموں کو جانچتا ہے۔جو باقاعدہ اللہ تعالیٰ کی رضا و منشا کے موافق ہوتی ہیں،انھیں رہنے دیتا ہے اور جو اس کے خلاف ہوتی ہیں،ان میں ضرورت کے مطابق ترمیم کر دیتا ہے۔ تذکیر بآلاء اللہ اور تذکیر بایام اللہ میں بھی قوم کے گرد و پیش کے احوال و واقعات پیش کیے جاتے ہیں،جنھیں عام طور پر لوگ جانتے بوجھتے ہیں۔یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے انبیا کی شریعتوں میں اختلاف ہے۔اس اختلاف کی مثال یہ ہے،جیسے ایک طبیب دو مریضوں کا علاج کرتا ہے،ایک کے لیے ٹھنڈی دوا اور ٹھنڈی غذا تجویز کرتا ہے اور دوسرے کے لیے گرم دوا اور گرم غذا۔غرض دونوں