کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 739
تورات پر ایمان رکھتے تھے،لیکن ان کی گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے احکامِ تورات میں تحریف کی تھی،خواہ وہ تحریف لفظی تھی یا معنوی۔نیز وہ بعض آیات چھپاتے اور کچھ من گھڑت باتیں اس میں شامل کر دیتے۔احکام کی پابندی میں تساہل برتتے اور مذہبی تعصب میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دور ازقیاس بتاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی اور طعن کرتے،بلکہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہتے تھے۔وہ بخل و حرص جیسی برائیوں میں بھی مبتلا تھے۔وہ تورات وغیرہ کے ترجمے میں تحریفِ لفظی کا ارتکاب کرتے تھے،اصل میں نہیں۔اس فقیر کے نزدیک یہی بات صحیح ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بھی یہی ہے۔ تحریف معنوی،تاویل فاسد کو کہتے ہیں۔یعنی سینہ زوری کے ساتھ کسی آیت کے معنی اس کے اصل معنی سے ہٹ کر بیان کرنا اور اس طرح سیدھی راہ چھوڑ کر کسی دوسری طرف کترا جانا۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہر مذہب میں دین دار،فاسق اور منکر کافر کے درمیان فرق واضح کر دیا گیا ہے۔مثلاً کافر کے بارے میں یہ حکم لگایا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ سخت عذاب میں ہی مبتلا رہے گا اور فاسق آدمی انبیا کی شفاعت سے دوزخ سے نکل آئے گا۔پھر اس ضمن میں ہر مذہب نے اپنے پیروں کا نام ظاہر کر کے اس سے آگاہ کیا ہے۔چنانچہ تورات میں یہودی اور عبری فاسق کو شفاعت سے ممتنع ہونے کا بتایا گیا ہے،انجیل میں نصرانی کو اور قرآن مجید میں مسلمانوں کو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کا انحصار اللہ اور یومِ آخرت پرایمان اور اس نبی کی اطاعت پر ہے،جو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا ہو۔نیز اس کی شریعت پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے پر ہے۔کسی فرقے کی ذاتی خصوصیت کی بنا پر نجات نہیں ہو سکتی۔مگر یہودیوں کا گمان ہے کہ یہودی اور عبری دونوں ضرور جنت میں داخل ہوں گے اور انبیا کی شفاعت انھیں نصیب ہو گی۔گویا وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پران کا ایمان صحیح نہ بھی ہو اور آخرت و رسالت پر ایمان کا کچھ حصہ وہ نہ بھی رکھتے ہوں،تب بھی وہ کچھ دنوں دوزخ میں رہ کر انبیا کی شفاعت سے نجات پا جائیں گے،حالانکہ یہ خیال بالکل غلط اور محض جہالت ہے۔چنانچہ قرآن مجید اگلی کتابوں کا محافظ اور ان کے مشکل مقامات کو واضح کرنے والا ہے،اس لیے اس نے اس شبہے سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
[1] مسند أحمد (۳/ ۳۳۸) اس کی سند میں’’مجالد بن سعید‘‘ ضعیف ہے۔ [2] إرشاد الساري (۱۰/ ۴۷۰) نیز دیکھیں : فتح الباري (۱۳/ ۵۲۶)