کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 735
11۔یہ جزو عزیر علیہ السلام سے متعلق ہے،اس میں قوم کے سرزمین بابل سے بیتِ ثانی کی طرف لوٹنے اور اس کی بنا ڈالنے کا بیان ہے۔ ربانیون فرائضِ تورات کی شروح اور اس پر تفریعات میں منفرد ہیں۔وہ ان کو موسیٰ علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔تورات کی کئی شروح اور تفاسیر ہیں،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : 12۔شرح شیخ صاحب مہذب الدین یوسف بن ابی سعید السامری (المتوفی: ۶۲۳؁ھ) صاحبِ’’عیون الأنباء‘‘ نے اس کا ذکر کیا ہے۔وہ دمشق کے اطبا میں سے تھا اور بادشاہ امجد نے اسے اپنا وزیر بنا رکھا تھا۔ 13۔شرح شیخ صدقہ بن منجا السامری (المتوفی ۶۲۵ھ؁) انتھیٰ ما في کشف الظنون۔[1] حافظ امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب’’إغاثۃ اللھفان‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ وہ تورات جو اب یہود کے ہاتھ میں ہے،اس میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ آیا اس کی تاویل میں تحریف ہوئی ہے یا تنزیل (اصل نازل شدہ) میں ؟ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ساری تورات یا اس کے اکثر حصے میں تبدیلی ہوئی ہے۔بعض نے اس معاملے میں اتنا غلو کیا ہے کہ انھوں نے اس کے ساتھ استنجا کرنا جائز قرار دیا ہے۔جب کہ اس کے مقابلے میں اہلِ حدیث،اہلِ فقہ اور اہلِ کلام کی ایک جماعت نے کہاہے کہ تبدیلی تاویل و تفسیر میں ہوئی ہے نہ کہ تنزیل میں۔چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں کہ’’یحرفون‘‘ کا معنی ہے’’یزیلون‘‘،کیونکہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا ایک لفظ بھی زائل نہیں کر سکتا،لیکن یہود اس کی حقیقی تاویل کے سوا دوسری تاویل کرتے ہیں۔امام رازی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ میں نے اپنے شیخ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ اس مسئلے میں فضلا کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا ہے،ان میں سے ایک اس مذہب کو جائز قرار دیتا ہے اور اس کے سوا دوسرے مذہب کو کمزور کہتا ہے۔جب لوگوں نے اس پر انکار کیا تو اس نے تورات کی پندرہ نقول ان کے سامنے پیش کر دیں۔ من جملہ ان لوگوں کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ تورات زمین کے مشارق و مغارب میں