کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 719
تفسیر العکبري،ابوالبقاء کی تالیف ہے۔اس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ تفسیر عکرمۃ،یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ تفسیر علامي،تفسیر کا نام ہے:’’فتح المنان‘‘ یہ قطب شیرازی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۱۰؁ھ) کی تفسیر ہے۔ تفسیر علاء الدین،علی بن محمد بغدادی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۴۱؁ھ) کی تالیف ہے۔ تفسیر علاء الدین ترکماني،اس پر برہان الدین ابراہیم بن موسیٰ کرکی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۵۳؁ھ) کا حاشیہ ہے۔ تفسیر علائي،علاء الدین محمد عبدالرحمن بخاری معروف بالعلاء الزاہد رحمہ اللہ (المتوفی: ۵۴۶؁ھ) تفسیرعلیابادي،اس کا نام:’’مطالع المعاني‘‘ ہے۔ تفسیر عماد کندي،اس کا نام’’کفیل‘‘ ہے۔ تفسیر علي القاري،شیخ نورالدین علی بن سلطان محمد قاری ہروی نزیل مکہ مکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۰۱۰؁ھ) کی تالیف ہے۔ تفسیر العوفي،محمد بن سعد بن محمد بن حسن کی تالیف ہے۔یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ثعلبی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر العیشي،یہ محمد تبردی رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۰۱۶؁ھ) کی تالیف ہے۔ تفسیر الغرناطي،محمد بن علی اندلسی رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔ تفسیر الغزالي،اس کا نام:’’یاقوت التأویل‘‘ ہے،اس کا ذکر آگے آئے گا۔ تفسیر الغزي،شیخ بدرالدین محمد بن رضی الدین محمد عامری شافعی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۶۰؁ھ) کی یہ منظوم تفسیر ہے۔بہت سے علما نے اس کی نظم کا انکار کیا ہے،کیونکہ یہ قرآن عظیم کو اس کی نظم شریف سے نکالنے والی ہے۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے ایک وزن کلام کو جو قرآنی نظم نہیں ہے اس میں داخل کرنا لازم آتا ہے۔القطب المکی نے اپنے’’رحلۃ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔’’دستور الأعلام‘‘ میں کہا ہے کہ اس کی تین تفسیریں ہیں : ایک نثر میں اور دو نظم میں،جن میں ایک لاکھ اسی ہزار اشعار ہیں۔ان کی تاریخ وفات ۹۸۴؁ھ ہے۔ملا کاتب رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
[1] کشف الظنون (۱/ ۴۵۲)