کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 706
تفسیر البیہقي،ابو المحاسن مسعود بن علی بیہقی ملقب بہ فخرِ زمان رحمہ اللہ (المتوفی: ۵۴۴؁ھ) تفسیر الثعلبي،جس کانام’’الکشف والبیان‘‘ ہے،اس کا ذکر آگے آئے گا۔ تفسیر الثمالي،ابو حمزہ۔ثعلبی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ تفسیرالثوري،اور وہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں،ثعلبی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر الجامي،شیخ نورالدین عبدالرحمن بن احمد جامی رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۹۲؁ھ) یہ تفسیرایک جلد میں ہے،اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ رب العالمین من الأولین والأقدمین…الخ‘‘ اس میں انھوں نے کہا ہے: ’’یختلج في صدري أن أرتب في التفسیر کتابا جامعا لوجوہ اللفظ والمعنی لا یدع فیھما دقیقۃ أو لطیفۃ إلا أبداہا،محتویا علیٰ نکات البلغاء ومنطویا علیٰ إشارات العرفاء‘‘[1]انتھیٰ۔ [میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ میں تفسیر میں ایک کتاب مرتب کروں،جو لفظ و معنی کی وجوہ کو ایسے جمع کرنے والی ہو کہ وہ ان دونوں میں کوئی دقیقہ اور لطیفہ ظاہر کیے بغیر نہ چھوڑے اور وہ بلغا کے نکات اور عرفا کے اشارات پر مشتمل ہو] چنانچہ انھوں نے فرمانِ باری تعالیٰ: ﴿وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ﴾ تک تفسیر لکھی۔ان کا ایک شاگرد عبدالغفور رحمہ اللہ اس کے آخر میں لکھتا ہے: ’’إن شیخنا لما تصدیٰ بحقیقتہ الجامعۃ لتفسیر کلام اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ظہرا،و لتأویل آیاتہ بطنا،کشف بقلم التسوید عن مخدرات الحزب الأول منہ الأستار،ولما طال وبیض ما سودہ إلا بعض آیاتہ،وھو من قولہ تعالیٰ: ﴿اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ إلیٰ تمام ما بقي حتیٰ أشار إلي تبییضہ من لا یرد أمرہ فامتثلت‘‘[2]انتھیٰ۔ [جب ہمارے شیخ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام کی تفسیر کے لیے ظاہری طور پر اور کی آیات کی تاویل کے لیے باطنی طور پر اپنی حقیقت جامعہ کے ساتھ اس کے در پے ہوئے اور پہلے
[1] کشف الظنون (۱/ ۴۴۴)