کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 704
’’الحمد للّٰہ القادر العلیم… الخ‘‘ اس کے شروع میں مولف نے علمِ تفسیر کے مقدمات میں سے تئیس مقدمے ذکر کیے ہیں۔اس کتاب میں انھوں نے تفسیر’’کشاف‘‘ اور’’مفاتیح الغیب‘‘ کو مختصر اور آسان عبارت کے ساتھ اور اکثر مقامات پر اضافوں اور اعتراضوں کے ساتھ خوب اچھی طرح جمع کیا ہے۔صفدی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’رأیتہ یکتب فیہ من خاطرہ من غیر مراجعۃ‘‘[1] [میں نے ان کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے حافظے سے بغیر مراجعہ کیے لکھتے تھے] یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھوں نے اسے مکمل نہیں کیا تھا۔ ملا کاتب کہتا ہے: ’’وعندي بخطہ آخر قطعۃ إلیٰ آخر القرآن‘‘ [میرے پاس اس کے خط میں ایک قطعہ ہے،جو قرآن کریم کے آخر تک ہے] تفسیر الأصم،ابو بکر عبدالرحمن بن کیسان رحمہ اللہ۔ثعلبی رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ تفسیر أکمل الدین،محمد بن بابرتی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۸۷؁ھ) تفسیر إمام الحرمین،ابو المعالی عبدالملک بن عبداللہ جوینی رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۷۸؁ھ) تفسیر الأنماطي،ابو اسحاق ابراہیم بن اسحاق نیشاپوری رحمہ اللہ (المتوفی: ۳۰۳؁ھ) یہ بہت بڑی تفسیر ہے۔ تفسیر آیۃ الکرسي،یہ محمد بن محمود مغلوی وفائی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۴۰؁ھ) کی تالیف ہے۔نیز اسی عنوان سے فتح اللہ بن ابی یزید رحمہ اللہ کی تالیف ہے،اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ الذي منح الحیاۃ…الخ‘‘ اسی طرح بدر الدین بن رضی الدین غزی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۸۴؁ھ) کی بھی اسی عنوان سے تالیف ہے۔اسی طرح بقاعی رحمہ اللہ کی’’الفتح القدسی‘‘ اور منصور طبلاوی مصری رحمہ اللہ کی تفسیر ہے،جس کا نام’’السر القدسي‘‘ ہے۔ تفسیر البخاري،یہ وہی تفسیر ہے جو امام صاحب رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے اور اپنی صحیح کی ایک کتاب بنائی ہے۔مذکورہ تفسیر کے علاوہ ان کی ایک اور تفسیر بھی ہے،جس کا نام’’التفسیر الکبیر‘‘ ہے۔فربری رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔