کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 696
کے مذہب کے مطابق۔انھوں نے یہ کام خوب کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں بلاغت کے تمام فنون کو بیان کیا ہے۔﴿وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِِیْمٌانتھیٰ کلام ابن خلدون۔[1] راقم الحروف کہتا ہے کہ طیبی رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا کتاب کے بعد کشاف پر بہت سی کتابیں تالیف کی گئیں۔جن کے مولفین نے معتزلہ کا تعاقب کیا اور ان کی سازشوں کی کمین گاہوں کو خوب واضح کیا ہے۔نیز اس کے مراتبِ بلاغت اور مدارجِ لغت کو خوب آشکار کیا ہے،والحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔جیسا کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے اور اس کے ابواب،مشتملات اور مطالب پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح آخری دور میں علماے محققین نے تنقیحِ روایت اور تدقیقِ درایت کو غایۃ الغایات اور نہایۃ النہایات تک پہنچا دیا ہے۔موضوع کو مرفوع سے،صحیح کو ضعیف سے،منکر کو ثابت سے اور متواتر کو شاذ سے جدا جدا کر کے واضح کر دیا ہے اور کتابِ عزیز اور سنتِ مطہرہ کے دفاع کا جو حق تھا،اسے ادا کیا ہے۔جزاہم اللّٰہ عنا خیرا۔ اب ہر صاحبِ بصیرت کی یہ ذمے اری ہے کہ وہ اچھے کو برے سے اور معتبر کو نا معتبر سے خوب اچھی طرح پہچان لے اور اس مصرعے پر عمل کرے۔ خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا کَدَرَ [جو صاف اور واضح ہے،اسے لے لو اور جو گندا اور غلط ہے،اسے ترک کر دو] ہمارے دور کے بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو اہلِ علم و فضل میں شمار کرتے ہیں،مگر وہ اساتذہ کی تقلید کی رسیوں میں جکڑے ہوئے اور مشائخ کے آثار کی اقتدا کرنے والے بنے ہوئے ہیں اور ان کی تحقیقات سے،جو پراگندہ گرد و غبار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں،کنارہ کشی اختیار کرنے کو بہت بڑا گناہ شمار کرتے ہیں۔ان کی راہ کی رسم و طبع کے حجاب نے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی و نامرضی دریافت کرنے سے،اسلام کے خالص اور کھرے طریقے کو اختیار کرنے سے،اتباع سے آراستہ اور ابتداع سے کنارہ کش ہونے سے روک دیا ہے۔إلا ماشاء اللّٰہ تعالیٰ،وقلیل ماہم وقلیل من عبادی الشکور۔ آج غلو اور مبالغے کی،جس سے بدتر دین میں کوئی چیز نہیں ہے،نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تقلید سے خروج کو ملتِ اسلام سے خروج تصور کیا جاتا ہے اور تقلید کے منکر کو لوگ صابی اور بد دین