کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 694
دواوین لکھے گئے،بعد اس کے کہ عربوں کی طبیعتیں تحریر کی طرف میلان نہیں رکھتی تھیں۔پس وہ اس سے رک گئے اور اہلِ زبان کی کتابوں سے اسے اخذ کرنے لگے۔پھر اس سلسلے میں تفسیرِ قرآن کی ضرورت محسوس ہوئی،کیونکہ وہ عربوں کی زبان اور ان کی بلاغت کے منہج پر ہے۔ اس وقت تفسیر کی دو قسمیں بن گئی: ایک تفسیر نقلی،جو سلف سے منقول آثار پر مشتمل ہے اور وہ آثار ناسخ و منسوخ،اسبابِ نزول اور مقاصدِ آیات کی معرفت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم سے منقول علم ہی سے پہچانا جا سکتا ہے۔متقدمین نے اس سے متعلق بہت سی چیزیں جمع کیں اور انھیں ذہن نشین کیا،مگر ان کی کتابیں اور منقولات نکمی اور عمدہ،مقبول اور مردود دونوں قسموں پر مشتمل تھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب لوگ اہلِ کتاب اور اہلِ علم نہ تھے،بلکہ ان پر بدویت اور امیت کا غلبہ تھا۔جب ان کو کسی ایسی چیز کا شوق ہوتا،جس کی طرف بشری نفوس مشتاق ہوتے ہیں،یعنی اشیا کے وجود میں آنے کے اسباب،مخلوق کی ابتدا اور وجود کے اسرار تو وہ اس سے متعلق اپنے سے پہلے اہلِ کتاب سے استفسار کرتے اور ان سے استفادہ کرتے۔وہ لوگ اہلِ تورات یہودی اور ان کے دین کے پیروکار نصرانی تھے۔اس وقت عربوں میں جو اہلِ تورات رہایش پذیر تھے،وہ انہی کی طرح تھے،ان کو اتنا ہی علم تھا،جتنا اہلِ کتاب کے عام لوگوں کو ہوتا تھا۔ان میں سے اکثر اس حمیر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے یہودیت کو اختیار کیا تھا۔پھر جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو وہ اپنے اس علم پر باقی رہے،جس کا ان احکامِ شرعیہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا،جن میں وہ مصلحت اندیشی سے کام لیتے تھے،جیسے مخلوق کی ابتدا،حوادث اور خون ریزیوں سے متعلق خبریں وغیرہ۔یہ کعب الاحبار،وہب بن منبہ رحمہما اللہ،عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان جیسے دیگر لوگ تھے۔ پس ان اغراض کے لیے ان کے پاس جو منقولات تھیں،ان کی تفاسیر ان سے بھر گئیں،جن میں اکثر موقوف خبریں تھیں۔ان کا احکام کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا کہ ان کی صحت کا اہتمام کیا جاتا،جن احکام پر عمل کرنا واجب تھا۔مفسرین نے اس طرح کی چیزوں میں تساہل کا مظاہرہ کیا۔چنانچہ ان کی تفاسیر ان منقولات سے بھر گئیں اور ان تفاسیر کی اصل،جیسے ہم نے عرض کی ہے،ان اہلِ تورات سے تھی،جو بادیہ نشین تھے اور ان کے ہاں ان چیزوں کی تحقیق کا کوئی تصور نہ تھا،جن کو وہ نقل