کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 673
ہوتا ہے:’’اللّٰہ أحمد أن جعلني من خدام أہل الکتاب…الخ‘‘ اور انھوں نے اس کا نام’’الفتح السماوي بتخریج أحادیث البیضاوي‘‘ رکھا ہے۔ 30۔ کمال الدین محمد بن محمد بن ابی شریف قدسی رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۰۳؁ھ) کا حاشیہ۔ 31۔ شیخ قاسم بن قطلوبغا حنفی رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۷۹؁ھ) کا حاشیہ۔محشی نے یہ حاشیہ فرمانِ باری تعالیٰ ﴿فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْن﴾ تک لکھا ہے۔ 32۔ سید شریف علی بن محمد جرجانی رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۱۶؁ھ) کا حاشیہ۔امام سخاوی رحمہ اللہ نے اپنے پوتے سے نقل کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا ہے۔ 33۔ شیخ رضی الدین محمد یوسف مشہور بابن ابی اللطف قدسی رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۲۸؁ھ) کا حاشیہ۔یہ حاشیہ کشاف اور شرح ابو داؤد کے ساتھ ایک ضخیم جلد میں ہے،اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ الذي أنزل علیٰ عبدہ الکتاب…الخ‘‘ محشی نے اس تعلیق کو اپنے درس کے زمانے میں صخرہ (سلیمانی) کے پاس بیٹھ کر سورۃ الانعام کے آخر تک املا کروایا۔پھر اس کا مسودہ صاف کرنے کے بعد اسعد مفتی رحمہ اللہ کے پاس بھیج دیا۔ 34۔ مختصر تفسیربیضاوی جو محمد بن محمد بن عبدالرحمن معروف بامام الکاملیۃ شافعی قاہری رحمہ اللہ (المتوفی: ۸۷۴؁ھ) کی تالیف ہے۔انتھیٰ مافي کشف الظنون۔[1] 35۔ تفسیر بیضاوی پر شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی شاگرد ملا عماد رحمہ اللہ (المتوفی: ۹۹۸؁ھ) کا بھی ایک حاشیہ ہے۔موصوف کی قبر احمد آباد میں ہے۔آیتِ کریمہ: ﴿لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً﴾ ان کی تاریخ وفات ہے۔یہ فضلاے ہند سے ہیں اور مصنف کتبِ کثیرہ ہیں۔ان کا ترجمہ’’مآثر الکرام‘‘ میں درج ہے۔ 36۔ نیز بیضاوی پر ایک حاشیہ ملا عبدالحکیم سیالکوٹی (المتوفی: ۱۰۶۷) کا تحریر کردہ ہے۔سیالکوٹ لاہور کے ماتحت علاقوں میں سے ہے۔ملا عبدالحکیم،کمال الدین کشمیری کے شاگرد ہیں۔بادشاہ شاہِ جہان کے عہد میں غیر محدود مال کی رعایت و حفاظت کے لیے مخصوص ہوئے اور چند بستیاں ان کی باج گذار تھیں۔