کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 666
باتیں کرنے والے زور کلامی اور دھوکے بازی سے کام لیتے ہیں۔
بہ ہرحال ان کی اس کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جمہور افاضل اور یکانہ روزگار افراد کے نزدیک حسنِ قبول حاصل ہوا،حتیٰ کہ لوگوں نے اس کی تدریس کی اور بعض لوگوں نے بعض سورتوں کے حواشی لکھے،بعض نے اس تفسیر کا مکمل حاشیہ اور بعض نے اس کے بعض مقامات پر حاشیے لکھے ہیں۔[1]
راقم الحروف کہتا ہے کہ ملا کاتب چلپی رحمہ اللہ نے جو اس جگہ بیضاوی کی تعریف میں مبالغہ اور ان کی تفسیر کی ثنا میں غلو کیا ہے تو وہ صرف اس محاورے کا مصداق ہے:
’’حبک الشییٔ یعمي ویصم‘‘
[تیرا کسی چیز سے محبت کرنا (تجھے) اندھا اور بہرا بنا دے گا]
ورنہ خود ان (چلپی) کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیضاوی رحمہ اللہ نے موضوع احادیث کا علم ہونے کے باوجود سورتوں کے فضائل بیان کرنے میں ترغیب کے لیے انھیں بیان کر دیاہے،جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ موضوع روایت کو بیان کرنا اہلِ علم کے اتفاق کے ساتھ حرام ہے۔مندرجہ ذیل صحیح حدیث سے زیادہ اس کی وعید کیا ہو سکتی ہے:
((مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ)) [2]
[جس شخص نے عمداً مجھ پر جھوٹ بولا تووہ اپنی جگہ آگ میں سمجھ لے]
بہرحال بیضاوی رحمہ اللہ کا فلسفے میں دور نکل جانا،اس کا نصوص کو ظواہرسے پھیرنا اور مذاقِ معقول کے ساتھ اس کی تاویل کرنے میں اہلِ کلام اور اہلِ حکمت و فلسفہ کی اقتدا کرنا،ایک ایسی چیز ہے کہ موافق و مخالف اس میں یک زبان ہیں۔صحیح اور مرفوع احادیث کو جو آیات بینات کی مفسر یا مبین ہیں،معقولیوں کی خام تشکیک اور اہلِ کلام کی واہی تاویلوں کے ساتھ نیز اپنے فاسدگمان اور غلط رائے کے ساتھ سست اور ناکافی قرار دینا،اسی طرح نصوص کے مقابلے میں حکما کے مذاہب اور یونانیوں کی آرا کی طرف داری کرنا،اگر سچ پوچھتے ہو تو یہ عقلی سازشوں کا حامی بننا اور نقلی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے اور قرآن مجید کی تفسیر رائے سے کرنا ہے نہ کہ سمع و نقل سے۔إلا ماشاء اللّٰہ۔
کوئی تفسیر لکھ کر یا علوم میں سے کسی علم میں کوئی کتاب تالیف کر کے اپنی فضیلت اور قابلیت کا