کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 665
ظاہر فرمائی،کبھی وجوہِ محاسن کے مقام و مرتبہ کی طرف اشارہ کیا اور استعارے کی دل کشی و دل ربائی کی نقاب کشائی کی۔حکمت کے ہاتھ و زبان کے ساتھ اسرارِ معقولات کے رخ سے پردہ ہٹایا،اشکالات اور مشکل مقامات کو مرتب کیا اور مباحثِ دقیقہ کو اس انداز میں بیان کیا کہ وہ گمراہ کن شبہات سے محفوظ ہو گئے اور مناہجِ ادلہ کی وضاحت فرمائی۔ انھوں نے وجوہ تفسیر میں جو’’قِیْلَ‘‘ کے ساتھ ثانیاً،ثالثاً یا رابعاً ذکر کیا ہے،وہ مرجوح یا مردود ہونے کی بنا پر ضعیف ہے اور وہ وجہ جس میں وہ متفرد ہیں،بعض کا یہ گمان ہے کہ وہ وجہ وجوہِ تفسیریہ میں سے نہیں ہے،جیسے ان کا یہ قول کہ فرشتوں کا عرش کو اٹھانا اور اس کو گھیرنا،ان کے عرش کی حفاظت کرنے اور اس کی تدبیر وغیرہ کرنے سے مجاز ہے۔پس یہ گمان اس شخص کا ہو سکتا ہے کہ شاید اس کا فہم اس کے مبانی سے کوتاہی کرنے والا ہو اور اس کا علم اس کی محتویات تک نہیں پہنچا۔اس طرح کے گمان کے ساتھ ان کے کلام پر اعتراض کرنے والا ایسے ہی ہے،جیسے کوئی شخص عنقا پرندے کے لیے جال لگائے اور گدھ شکار کرنے کا ارادہ رکھتا ہو،کیونکہ قاضی صاحب اہلِ سنت و جماعت کے مذہب پر علومِ دینیہ اور فنونِ یقینیہ کی لگام کے مالک ہیں اور لوگ ان کے فضل مطلق کا اعتراف کر چکے اور ان کی فوقیت اور سبقت کو مان چکے ہیں۔ ان کی تفسیر دشوار گزار علم کے فنون اور متنوع قواعد کی انواع پر مشتمل ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص فنون میں سے کسی فن میں نمایاں ہو،وہ دیگر فنون میں پیچھے رہ جاتا ہے اور مثل مشہور ہے کہ آدمی اس کا دشمن اور اس کے خلاف ہوتا ہے،جس سے وہ ناواقف ہوتا ہے۔اس کے مقصد کو اس شخص کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا،جو عینِ فکر کے ساتھ اس میں نگاہ دوڑائے۔اپنے نفس کی خواہشات سے چشم پوشی کرے اور اپنے نفس کو اپنے مولاو آقا کی اطاعت کا غلام بنا لے،تاکہ وہ غلطی اور گمراہی سے بچ جائے اور مغالطے اور جھگڑے کو رد کرنے کی قدرت حاصل کر لے۔ قاضی رحمہ اللہ صاحب نے سورتوں کے آخر میں جو احادیث ذکر کی ہیں ان میں سے اکثر کے بارے میں انھوں نے تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا ہے،جس کا سبب یہ ہے کہ دل کی انتہائی صفائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مہکوں کے حاصل ہونے کی وجہ سے انھوں نے جرح و تعدیل سے اعراض کیا ہے اور وہ ترغیب اور تاویل کی طرف مائل رہے ہیں،حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی