کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 664
جیسے نکتے کے ساتھ مقابلہ کیا اور مدرس سے اپنے اس نکتے کا حل طلب کیا،مدرس پر اس کا حل دشوار ہو گیا۔ایک وزیر اس مجلس میں موجود تھا،اس نے بیضاوی رحمہ اللہ کو اس کی جگہ سے اٹھا کر اپنے نزدیک کیا اور اس کے حال احوال پوچھنے شروع کر دیے کہ تو کون ہے اور کہاں سے ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں بیضاوی رحمہ اللہ ہوں اور قضاے شیراز کی طلب میں آیا ہوں۔وزیر نے ان کی بہت عزت کی اور اسی دن اسے قضا کا خلعت بخشا اور واپس شیراز بھیج دیا۔انتھیٰ۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ دراز مدت تک اس کے پاس رہے،پھر انھوں نے شیخ محمد بن محمد کتحتائی سے سفارش چاہی۔پھر جب وہ حسبِ عادت وزیر کے پاس گئے اور کہا کہ یہ شخص عالم و فاضل ہے اور امیر کے ساتھ سعیر (بڑھکتی ہوئی آگ) میں اشتراک چاہتا ہے،یعنی وہ تجھ سے سجادے کی مقدار میں آگ کے اندر جگہ طلب کرتا ہے،یعنی وہ اس کی مجلسِ حکم (عہدۂ قضا) کا طلب گار ہے۔بیضاوی رحمہ اللہ ان کی اس بات سے بہت متاثر ہوئے اور مناصبِ دنیویہ کو ترک کر کے زندگی کے اختتام تک شیخ کے ساتھ لگے رہے اور ان کے حکم سے اپنی تفسیر لکھی اور جب وفات پائی تو ان کی قبر کے نزدیک دفن کیے گئے۔ان کی یہ تفسیر ایک عظیم الشان کتاب ہے،جس کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔انھوں نے اس تفسیر میں کشاف سے اعراب،معانی اور بیان سے متعلق اشیا کی تلخیص کی ہے۔تفسیر کبیر میں جو کچھ حکمت و کلام سے متعلق تھا،اس کو اخذ کیا۔تفسیر راغب سے اشتقاق،غوامضِ حقائق اور لطائفِ اشارات کا خلاصہ کیا۔وہ وجوہِ معقولہ اور تصرفاتِ منقولہ جو ان کی فکر کا نتیجہ تھیں،اس میں ان کا اضافہ کر دیا اور دل سے شک کا زنگ اتار دیا۔جیسا کہ مولانا منشی رحمہ اللہ نے کہا ہے: أولوا الألباب لم یأتوا بکشف قناع ما یتلیٰ [اہلِ خرد نے قرآن مجید کی نقاب کشائی کرتے ہوئے اس کا پردہ نہیں ہٹایا] ولکن کان للقاضي ید بیضاء لا تبلیٰ [لیکن قاضی (بیضاوی) کو اس سلسلے میں ایسا کمال حاصل ہے،جو بوسیدہ اور پرانا نہیں ہوتا] چونکہ وہ علمِ کلام کے شہسوار تھے،اس لیے انھوں نے حسبِ مقام علوم میں اپنی مہارت