کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 661
ورنہ نہیں۔لیکن قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صحیح اترتی ہے،نہ کہ عیسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی صورت پر،کیونکہ انجیل میں ہے کہ فارقلیط تم میں مدت دراز تک رہے گا،علم سکھائے گا اور لوگوں کے ظاہر و باطن کو پاک کرے گا اور یہ باتیں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور میں ظاہر نہیں ہوئیں۔اب رہا عیسیٰ علیہ السلام کا نام تو اس سے مراد ان کی نبوت کی تصدیق ہے نہ یہ کہ ان کو رب بنا لیا جائے یا خدا کا بیٹا کہا جائے۔[1]انتھیٰ۔ میں کہتا ہوں کہ شیخ الاسلام تقی الدین احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۲۸؁ھ) کی ایک کتاب جس کا نام’’الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘ ہے۔یہ کتاب ایک جلد میں ہے،اس کا آغاز کلمۂ شہادت سے ہوتا ہے۔اس کتاب میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ پولس راہب،جو صعیدا انطاکی کا لارڈ بشپ تھا،کا رسالہ جو اس نے اپنے بعض دوستوں کے ساتھ لکھا تھا،وہ اس کے ہاتھ سے وارد ہوا ہے۔اس کا یہ رسالہ نہایت عمدہ اور علماے نصاریٰ کا معتمد علیہ ہے۔اس کا مضمون چھے فصلوں پر مشتمل ہے: 1۔پہلی فصل میں یہ بیان ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نہیں،بلکہ اہلِ جاہلیت کی طرف مبعوث ہوئے ہیں اور قرآن مجید اس پر دلالت کرتا ہے۔ 2۔دوسری میں یہ ذکر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دین کی ثنا اور مدح کی ہے۔ 3۔تیسری میں یہ بیان کیا ہے کہ انبیا کی نبوتیں ان کے دین کی حقیقت کی شاہد ہیں،لہٰذا ان کے دین کو اپنانا اور اختیار کرنا واجب ہے۔ 4۔چوتھی میں اس مدعا کو معقول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تثلیث ثابت ہے۔ 5۔پانچویں فصل میں نصاریٰ کے موحدیت کے دعوے کو ثابت کیا گیا ہے۔ 6۔چھٹی فصل میں یہ بیان ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے بعد غایت کمال کے ساتھ تشریف لائے ہیں،لہٰذا اب ایسی شرع کی ضرورت و حاجت باقی نہیں،جو اس غایت سے زیادہ ہو۔انتھیٰ۔ پھر ان چھے کی چھے فصلوں کا صحیح دلائل کے ساتھ شافی جواب دیا ہے اور مصنف کی طرف سے ان فصلوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے،اس کو باطل ثابت کیا گیا ہے۔