کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 660
کی طرف منسوب کرنے کا پہلو نکال لیا ہو،مگر حقیقت جو کچھ ہے،وہ اپنی جگہ ہے۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اس باطل مذہب کی تردید فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ عیسیٰ خدا کا بندہ اور اس کی وہ مقدس روح ہے،جسے اس نے مریم صدیقہ کے رحم میں پیدا کیا اور اسے روح القدس کی تائید عطا فرمائی اور ان کے بارے میں عنایتِ خاص کی رعایت رکھی۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسی روح کے لباس میں ظاہر ہوتا،جو تمام ارواح کی ہم جنس ہے اور انسان کی صورت اختیار کرتا تو اس کے لیے لفظِ اتحاد کا اطلاق موزوں اور درست نہیں ہو سکتا،الا یہ کہ اس میں چشم پوشی سے کام لیا جائے۔اس معنی کے لیے تقویم اور اس جیسے دیگر الفاظ قریب تر ہو سکتے ہیں۔﴿تَعٰلٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا﴾ [بني إسرائیل: ۴۳] [بہت بلند ہے اس سے جو یہ کہتے ہیں،بہت زیادہ بلند ہونا] نصاریٰ کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل پر یقین رکھتے ہیں،حالانکہ دراصل عیسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں ایک اشتباہ ہو گیا تھا۔جب وہ آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے تو نصاریٰ نے یہ خیال کر لیا کہ وہ قتل کر دیے گئے۔نسل در نسل یہ غلط بات نقل ہوتی رہی۔آخر اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں اس شبہے کا ازالہ کر دیا اور فرمایا: ﴿وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ﴾ [النساء: ۱۵۷] [حالاں کہ نہ انھوں نے اس کو قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایااور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنا دیا گیا] انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام کا جو مقولہ مذکور ہے،اس سے مقصود یہودیوں کی جراَت اور اقدامِ قتل کے بارے میں صرف خبر دینا ہے،جبکہ واقعہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس ہلاکت سے بچا لیا تھا۔حواریوں کا جو مقولہ انجیل میں آتا ہے،اس کا سبب یہ ہے کہ انھیں اشتباہ ہو گیا تھا اور آسمان پر اٹھائے جانے کی انھیں خبر نہ ہوئی۔یہ ایک انوکھا واقعہ تھا،جس سے ان کے ذہن اور کان مانوس ہی نہ تھے۔ نصاریٰ کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جس فارقلیط کا وعدہ کیا گیا ہے،اس سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں،جو قتل ہونے کے بعد حواریوں کے پاس واپس آئے اور انھیں انجیل پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی اور کہا کہ میری نبوت کے دعویدار کئی ہوں گے تو جو شخص میرا نام لے،اس کی بات ماننا،
[1] کشف الظنون (۱/ ۱۷۷)