کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 659
کتاب ہے،جس کا وجود مطلق ہو،کیونکہ وہ کنہ کی ماہیت کی فرع اور نتیجہ ہے۔اس فرمانِ باری تعالیٰ میں اسی کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَ عِنْدَہٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ﴾[1] انتھیٰ۔
راقم الحروف کہتا ہے کہ’’الفوزالکبیر‘‘ کے مطابق اس مقصد میں تحقیقی بات یہ ہے کہ نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے،مگر ان کی گمراہی یہ تھی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا،جو ایک لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا اور دوسرے لحاظ سے دونوں ایک تھے۔وہ ان تین حصوں کو’’أقانیمِ ثلاثہ‘‘ کہتے تھے،ان میں ایک باپ ہے،جو مبداے عالم کے طور پر ہے،دوسرا بیٹا ہے جو بہ طور صادرِ اول ہے،جو عام معنی بن کر تمام موجودات میں شامل ہے اور تیسرا حصہ روح القدس ہے،جو عقول مجردہ کی جگہ ہے۔ان کا عقیدہ تھا کہ ابن کے اقنوم (صادرِ اول) نے عیسیٰ علیہ السلام کی روح کا لباس پہنا ہے،یعنی جس طرح جبریل علیہ السلام صورتِ انسان میں ظاہر ہوتے ہیں،اسی طرح بیٹے نے روحِ عیسیٰ کی صورت اختیار کر لی ہے۔پس عیسیٰ علیہ السلام خدا بھی ہیں،اللہ کے بیٹے بھی اور بشر بھی۔اسی لیے بشری اوصاف اور خداوندی صفات دونوں ان کی طرف منسوب کیے جا سکتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ انجیل کی بعض آیتیں بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں،جن میں’’ابن‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام نے بعض خداوندی افعال کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کا کلام ہے،اس میں تحریف نہیں ہوئی تو اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ابن کا لفظ محبوب،مقرب اورمختار کے معنوں میں مستعمل تھا،جیسے انجیل میں اکثر مقامات پر اس کے قرائن پائے جاتے ہیں۔
دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہ نسبت،ایک اسلوبِ بیان ہے،جیسے کسی بادشاہ کا سفیر یوں کہے کہ ہم نے فلاں ملک فتح کر لیا اور فلاں قلعہ پر قبضہ کر لیا۔تو اس سے مراد وہ خود نہیں،بلکہ بادشاہ ہوتا ہے۔ایلچی کی حیثیت بادشاہ کے ترجمان کی ہوتی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ عالمِ بالا سے وحی بہ راہِ راست عیسیٰ علیہ السلام کے لوحِ دل پر منقش ہوتی ہو اور جبریل علیہ السلام صورتِ انسانی میں ان کے پاس آ کر کلام القا نہ کرتے ہوں،اس لیے عیسیٰ علیہ السلام براہِ راست دل پر آئی ہوئی وحی کو بہ جنسہ ادا کر دیتے ہوں،جس سے سننے والوں نے بہ ظاہر افعالِ خداوندی کو ان
[1] کشف الظنون (۱/ ۱۷۷)