کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 645
اس نے ان دونوں کے درمیان محاکمہ تحریر کروانے کے لیے یہ جوابات یحییٰ افندی رحمہ اللہ مفتی کے پاس بھیج دیے۔اس نے اس کا جواب لکھا اور اس میں امام صاحب کے بہت سے جوابوں کو ترجیح دی۔امام کو پورے اکرام و اعزاز کے ساتھ قضاے عسکر کے مرتبے پر فائز کیا گیا۔ وہ مسائل جن میں محاکمہ ہوا،ان میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَذَکِّرْ فَاِِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الذاریات: ۵۵] [اور نصیحت کر،کیونکہ یقینا نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے] اور اس فرمان: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ﴾ [المائدۃ: ۱۰۵] [اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر اپنی جانوں کا بچاؤ لازم ہے،تمھیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے،جب تم ہدایت پا چکے] کے درمیان توافق و تطبیق کیا ہے؟ معید نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی منافات ہی نہیں ہے کہ ان میں توافق کی ضرورت ہو،کیونکہ پہلی آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انذار و وعظ کی ذمے داری کے لیے مبعوث ہوئے ہیں،لہٰذا اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجادلہ ترک کرنے کے بعد وعظ و نصیحت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔دوسری آیت مومنوں سے خطاب ہے اور اس سے مراد سارے اہلِ ایمان ہیں۔وہ تذکیر و وعظ پر مامور نہیں ہیں،بلکہ وہ اپنے نفوس کی اصلاح و اہتدا کے پابند ہیں۔اس کے باوجود امام بیضاوی رحمہ اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اہتدا کی وسعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو شامل ہے۔پس تذکیر بھی اس میں داخل و شامل ہے،اس میں تنافی نہیں ہے۔ جب کہ امام صاحب نے فرمایا کہ احناف کے نزدیک خدا تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی خطاب امت کو بھی اپنے اندر شامل کرتا ہے۔بنابر تشریف اکیلے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین بھی اس خطاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہیں،جیسا کہ اصولِ حنفیہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔اور یہ کیسے نہ ہو جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: