کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 643
ہو جاتی ہے۔چنانچہ جب سبب معلوم ہو جاتا ہے تو وہ اس کے سوا دوسرے سے تخصیص کا قصد کرتے ہیں۔ اس علم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے قرآن مجید کے معانی کا فہم حاصل ہوتا ہے اور احکام کا استنباط ہوتا ہے۔کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی آیت کی معرفت اس کے سببِ نزول کو جانے بغیر میسر نہیں آتی،جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾ جو استقبالِ قبلہ کے عدمِ وجوب کا تقاضا کرتا ہے،جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ یہ معنی اجماع کے خلاف ہے۔یہ معرفت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی،جب تک اس آیتِ کریمہ کا سببِ نزول معلوم نہ ہو۔جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ آیتِ کریمہ سفری نوافل اور تحری کرنے والے نمازی کے بارے میں ہے۔مشاہدینِ تنزیل سے روایت اور سماع کے بغیر سببِ نزول پر گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ امام واحدی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’ویشترط في سبب النزول أن یکون نزولھا أیام وقوع الحادثۃ،وإلا کان ذٰلک من باب الإخبار عن الوقائع الماضیۃ کقصۃ الفیل‘‘[1] [سببِ نزول میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اس کا نزول،حادثے کے وقوع کے ایام میں ہو،ورنہ یہ ماضی کے واقعات کی خبر دینے کی قبیل سے ہو گا،جیسے ہاتھیوں کا قصہ ہے] اس علم پر کئی کتابیں تالیف کی گئیں ہیں،جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : أسباب النزول: شیخ المحدثین علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی: ۲۳۴؁ھ) کی تالیف ہے۔علی بن مدینی رحمہ اللہ ہی وہ پہلے شخص ہیں،جنھوں نے اس موضوع پر کتاب تصنیف کی۔ أسباب النزول: اس کے سو اجزا ہیں،جو شیخ عبدالرحمن بن محمد فطیس معروف بہ مطرف اندلسی رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۰۲؁ھ) رحمہ اللہ کی تالیف ہے۔ابو نصر سیف الدین احمد بن اسبرتکینی رحمہ اللہ نے اس کا فارسی میں ترجمہ لکھا ہے۔ أسباب النزول: شیخ ابوالحسن علی بن احمد واحدی مفسر رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۷۸؁ھ) کی تالیف ہے۔اس موضوع کی مصنفات میں سب سے زیادہ مشہور تصنیف ہے۔اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ الکریم الوہاب۔۔۔‘‘
[1] کشف الظنون (۱/ ۶۹۔۷۰)