کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 641
کی تفسیر کے بعد کوئی تفسیر اعتبار و اشتہار میں اس پائے کی نہیں ہے۔ملا کاتب رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’والحق أنہ حقیق بہ،مع ما فیہ من المنافي لدعوی التنزیہ،ولا شک أنہ مما رواہ طالع سعدہ کما قال الشہاب المصري في خبایا الزوایا‘‘ [1] [حق تو یہ ہے کہ وہ اسی تعریف کے لائق ہے،اس کے باوجود اس میں تنزیہ کے دعوے کے منافی کچھ چیزیں پائی جاتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلا شبہہ وہ ایسی چیز ہے،جسے وہی بیان کرتا ہے جو صاحبِ نصیب ہو،جیسے الشہاب المصری نے اپنی کتاب’’خبایا الزوایا‘‘ میں بیان کیا ہے] راقم الحروف کہتا ہے کہ اس تفسیر کا ماخذ کشاف،بیضاوی اور اس کی شروح ہیں۔مولف نے اس کے مضامین کو خوش اسلوب عبارت،مرتب و آراستہ انداز اور ربطِ کلام کے ساتھ ادا کیا ہے۔علمِ بلاغت اور علمِ ادب کی خوب داد دی ہے،گویا وہ علم معانی اور علم بیان کی کتاب ہے۔اس میں مقصود تفسیر کم ہی پائی جاتی ہے،اس میں مولف تراکیب و اعرابِ نحویہ پر بھی کلام کرتے ہیں۔ شیخ احمد رومی الاقحصاری رحمہ اللہ (المتوفی: ۱۰۴۱؁ھ) نے اس تفسیر پر سورۃ الروم سے سورۃ الدخان تک حاشیہ لکھا ہے۔اس تفسیر کا دیباچہ بہت لمبا ہے۔محمد بن محمد حسینی زیرک زادہ رحمہ اللہ نے ۱۰۰۳؁ھ میں اس کی شرح لکھی۔اس کے دیباچے کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’سبحان من أرسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق…الخ‘‘ اور اس کی شرح کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: ’’سبحان من أطلع شمس کتابہ…الخ‘‘ شیخ رضی الدین یوسف مقدسی رحمہ اللہ نے بھی تقریباً نصف تفسیر پر ایک عظیم حاشیہ تحریر کیا اور اسعد بن سعد الدین رحمہ اللہ کی بیت المقدس میں آمد کے موقع پر اس کی خدمت میں اس کا ہدیہ بھیجا۔اس حاشیے میں ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دونوں علما (زمخشری و بیضاوی رحمہ اللہ) اور اس فاضل سے نقل کرتے ہیں۔چنانچہ وہ کہتے ہیں :’’قال الکشاف،قال القاضي،قال المفتي‘‘ اس کے بعد وہ ان تینوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہیں۔اس کا افتتاحیہ یوں ہے:’’الحمد للّٰہ الذي أنزل علیٰ عبدہ الکتاب…الخ‘‘ ابھی تھوڑا ہی عرصہ پہلے مصر میں یہ تفسیر طبع ہوئی اور طالبان علم و حق
[1] کشف الظنون (۱/ ۴۳)