کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 625
آنے کا امکان تھا،ان سے احتراز کیا گیا ہے۔وہ اسرائیلی واقعات جو اہلِ کتاب،کعب احبار رحمہ اللہ،وہب بن منبہ رحمہ اللہ اور ان جیسے دیگر لوگوں سے منقول ہیں،خیرالبشر اور صادق و مصدوق کی حدیث سے نہیں تو ان کو اس تفسیر میں شامل نہیں کیا گیا۔الا یہ کہ کوئی جگہ ایسی ہو جہاں اس کے بیان کیے بغیر معنی واضح نہ ہوتا ہو یا اس کے ضعف پر تنبیہ کرنا ضروری تھا اور اس کے ضعف اور بے اصل ہونے کو بیان کرنے کی غرض سے بیان کیا گیا ہو۔ 4۔توجیہات میں سے عربیت کے اعتبار سے قوی ترین توجیہ،علمِ حدیث کے اعتبار سے صحیح ترین اور ظاہر سے پھیرنے میں کم ترین توجیہ کو اختیار کیا گیا ہے۔جو بھی اس تفسیر اور دیگر تفاسیر کا مطالعہ کرے گا،اسے اس بات میں کوئی شک نہیں رہے گا۔ 5۔یہ تفسیر مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کی طرف داری کیے بغیر صحیح روایت اور پسندیدہ درایت کی جامع ہے۔اس میں سوائے حق تعالیٰ کی مراد اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح منقول ہے،اس کے سوا کسی چیز کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔وباللّٰہ التوفیق۔ قرآن مجید کی قراء ت کی سند مجھ سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حفص رحمہ اللہ کی روایت سے متصل ہے،حفص رحمہ اللہ،عاصم رحمہ اللہ سے عثمان بن عفان،علی بن ابی طالب،ابی بن کعب،زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے توسط سے روایت کرتے ہیں،جیسے کہ تفسیر’’فتح الرحمٰن‘‘ کے آغاز میں یہ سند لکھی گئی ہے۔