کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 623
اندھیریوں،ناپسندیدہ اور برے اخلاق سے نجات پا جائیں اورحظیرۃ القدس (جنت) کی راہ کے راہی بن جائیں اور اپنے پروردگار کے ہاں پسندیدہ ہو جائیں۔جب تک وہ اللہ خود دستگیری نہ فرمائے تو ممکن نہیں ہے کہ ان ہلاکتوں سے نجات میسر آ سکے۔اگر وہ خود راہنمائی نہ کرے تو ان تہ بہ تہ اندھیروں سے بچ نکلنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ الحاصل اللہ تعالیٰ کے احسان نے ہمارے قلب و قالب کو گھیر رکھا ہے،اس کی سخاوت نے ہمارے ظاہر و باطن کو پکڑ رکھا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سعادتِ دارین سے مطلع فرمایا ہے۔دونوں زندگیوں کے مصالح بہ درجہ اتم بیان فرما دیے ہیں۔لہٰذا حق تبارک و تعالیٰ کے بیان سے واضح تر کسی کا بیان نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت سے بالا تر رحمت نہیں،کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ﴾ [الأنبیاء: ۱۰۷] [اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحمت کرتے ہوئے] ہم میں سب سے زیادہ نیک بخت وہ ہے،جس نے قرآن مجید کے مبانی و معانی کا فہم حاصل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع کیا اور ہم میں سے سب سے زیادہ بدبخت وہ ہے،جس نے کتاب و سنت کی راہ سے انحراف کیا۔ ہر زمان و مکان میں مسلمانوں کی نصیحت اور خیرخواہی کا ایک الگ رنگ ڈھنگ اور انداز رہا ہے اور ہر دور کا اپنا علاحدہ اقتضا رہا ہے۔لہٰذا علماے دین اور کبراے اہلِ یقین نے کتاب اللہ کی تفسیر میں اطناب (طوالت) کاراستہ اختیار کیا اور ایک جماعت نے اختصار کو پیش نظر رکھا۔ایک جماعت نے عربی زبان میں (تفسیر کرتے ہوئے) موتی پروئے اور ایک گروہ نے عجمی زبان میں لب کشائی کی۔عجمی تفاسیر اور ہندی تراجم میں کوئی کتاب’’تفسیر فتح الرحمٰن‘‘ اور کوئی ترجمہ’’موضح القرآن‘‘ کا مقابلہ نہیں کرتی۔اگر میں اپنی اس مختصر کتاب میں اس اجمال کی تفصیل بیان کرنے لگوں تو بات طویل ہو جائے گی۔ یہ خطہ جس میں ہم رہ رہے ہیں اور یہ صدی جس میں ہم موجود ہیں،اس میں مسلمانوں کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ قصوں کو بیان کیے بغیر اور زائد توجیہات کو ذکر کیے بغیر عربی محاورات کی سلیس عبارت کے ساتھ ایک تفسیر تحریر کی جائے۔اصولِ تفسیر کے اس رسالے کے شروع سے لے کر
[1] الإتقان (۱/ ۱۴۶) [2] مصدر سابق۔ [3] دیکھیں : السلسلۃ الصحیحۃ،رقم الحدیث (۲۳۴۲)