کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 616
چھٹا باب قرآن مجید سےمتعلق بعض مقاصد کا بیان لفظِ’’کتاب‘‘ کا اطلاق ہر کتاب اور مکتوب پر ہوتا ہے اور عرفِ شرع میں یہ لفظ عموماً قرآن کریم کے گرد گھومتا ہے۔قرآن لغوی لحاظ سے قراء ت کے معنی میں مصدر ہے۔عرفِ عام میں حق سبحانہ و تعالیٰ کے کلام کے اس معین مجموعے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے،جو بندوں کی زبانوں پر تلاوت ہوتا ہے۔اس معنی میں لفظ’’قرآن‘‘ لفظ کتاب سے اَشہر اور اَظہر ہے۔لہٰذا اس (کتاب) کو اس (قرآن) کی تفسیر قرار دیا گیا ہے۔ کتاب کی یہ تعریف لغوی اعتبار سے ہے اور لفظی تعریف وہ ہے جو اس سے زیادہ مشہور مترادف لفظ کے ساتھ کرتے ہیں۔لوگوں نے اصطلاحی رو سے مختلف عبارتوں کے ساتھ کتاب اللہ کی تعریف کی ہے،ان میں سے کوئی بھی نظر و اعتراض سے خالی نہیں ہے،چنانچہ بہتر تعریف یہ ہے : ’’ہوالکلام المنزل علیٰ محمد المتلو المتواتر‘‘ [(کتاب اللہ) وہ متلو اور متواتر کلام ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا] اس تعریف پر باقی تمام تعریفات پر ہونے والے اعتراضات میں سے کوئی اعتراض بھی وارد نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کا تواتر کے ساتھ ثبوت: اہلِ علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جو اخبارِ آحاد کے ساتھ منقول ہے،آیا وہ قرآن ہے یا نہیں ؟ ایک جماعت نے کہا ہے کہ نہیں،کیونکہ قرآن وہ ہے جس کے نقل پر متواتر اسباب و دواعی ہوں،اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے،جو احکام شرعیہ پر مشتمل اور معجزہ ہے۔ہر وہ چیز جس کا یہ مقام ہو،اس کا متواتر ہونا ضروری اور لازمی ہے اور جو متواتر نہیں ہے،وہ قرآن نہیں ہے۔اہلِ اصول