کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 613
تاہم صرف استنباط کے طریق پر کسی ایسے مناسب معنی کے ساتھ تفسیر کرنا کہ آیت کا ماقبل و ما بعد اس کا احتمال رکھتا ہو،نظم و ترتیبِ قرآن کا سیاق و سباق اس کی طرف اشارہ کرتا ہو یا اس کا تقاضا کرتا ہو،وہ کتاب و سنت کے مخالف بھی نہ ہو اور سلف کی ایک جماعت نے اس معنی کے ساتھ تفسیر بھی کی ہو تو اس تفسیر میں رخصت ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کی تفسیر کرتے تھے،ان کے درمیان وجوہِ معانی میں اختلاف ہو جاتا تھا،مگر اس کے باوجود وہ جو کچھ بھی کہتے تھے،وہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا علم نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ ثابت شدہ مرفوع تفسیر انتہائی قلیل،بلکہ قلیل ترین ہے،بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خواہشاتِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے قرآن مجید میں اپنے فہم کے مطابق اس کے معانی پر کلام کرتے تھے،مگر ہر کام میں اتباعِ سنت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے دعا فرمائی اور کہا: ((اَللّٰہُمَّ! فَقِّہْہُ فِيْ الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ)) [1] [اے اللہ! اس کو دین کا فہم عطا کر اور اسے تفسیر کا علم سکھا دے] لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ترجمانِ قرآن اور حبرِ (عالم) امت ہیں،چنانچہ ان سے بہت سی تفسیر مروی ہے،مگر ان سے مروی روایات میں صحیح اور ضعیف کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔گذشتہ فصلوں میں ہم اس کی طرف اشارہ کر آئے ہیں۔اسی طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام رحمہ اللہ علیہم کی ایک جماعت نے قرآن مجید کی تفسیرفرمائی ہے۔ صحیح ترین تفسیر وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو اور اہلِ روایت کے نزدیک مرفوع ہو۔اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر ہے،پھر تابعینِ عظام رحمہ اللہ علیہم کی تفسیر ہے۔اس کے بعد وہ جو ائمہ لغت و نحو کے ہاں از روے لغت ثابت ہو،بلکہ الفاظ کی حقیقتِ شرعیہ کے بعد حقیقتِ لغویہ سب پر مقدم ہے۔چنانچہ قرآن مجید کا مفہوم سمجھنے والے کے لیے لغتِ عرب کے ظاہر
[1] تفسیر الطبري (۱/ ۵۸)