کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 605
[پس لیکن وہ جس نے دیا اور (نافرمانی سے) بچا اور اس نے سب سے اچھی بات کو سچ مانا،تو یقینا ہم اسے آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے] ان آیات کو مسئلہ تقدیر میں معمول بہ بنایا ہے،اگرچہ اصل مفہوم یہ ہے کہ جس نے نیک عمل کیے،اسے جنت اور نعمات کی طرف لے جائیں گے اور جو بد عملی کا مرتکب ہو۔اس کے لیے جہنم و عذاب کا دروازہ کھول دیں گے۔لیکن (تقدیر) کے اعتبار سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ہر شخص ایک مخصوص حالت کے لیے پیدا کیا گیا ہے،وہی حالت اس پر طاری ہوتی ہے،چاہے وہ واقف ہو یا نہ ہو۔اس اعتبار سے یہ آیت مسئلہ تقدیر سے مربوط ہو گئی۔ اسی طرح درج ذیل آیت کا مضمون ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا* فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا﴾ [الشمس: ۷،۸] [اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ٹھیک بنایا! پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری (کی پہچان) اس کے دل میں ڈال دی] اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو نیکی اور گناہ پر مطلع فرما دیا ہے،لیکن نیکی اور معصیت کی صورتِ علمیہ کی پیدایش میں اور انسان کے نفخِ روح کے وقت اجمالاً نیکی اور بدی پیدا کرنے میں ایک مشابہت ہے،فن اعتبار کی رو سے یہ آیت مسئلہ تقدیر میں بہ طور استشہاد پیش کی جا سکتی ہے۔واللّٰہ أعلم۔ الحاصل تفسیر کا میدان بہت وسیع ہے۔ہر شخص اپنے طور پر قرآن کے مطلب کو سمجھنا چاہتا ہے۔ہر شخص ایک خاص فن کی رو سے غور کرنا اور اپنی قوتِ فصاحت اور فہم کے مطابق گفتگو کرتا ہے اور اپنی جماعت کا نظریہ پیشِ نظر رکھتا ہے۔یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر فنِ تفسیر میں لا محدود وسعت ہو گئی ہے اور اس پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں،جن کا شمار ممکن نہیں۔ایک جماعت نے ان سب کو ایک جگہ جمع کرنے کا ارادہ کیا،کبھی عربی میں کتاب لکھی اور کبھی فارسی میں۔یہ کتابیں اختصار اور اِطناب کے لحاظ سے مختلف ہیں۔اس طرح اس علم کا دامن اور وسیع ہو گیا۔ میری تفسیر تفاسیر میں سے جامع ترین تفسیر ہے،جو روایت و درایت کی جامع ہے اور تفاسیر میں سے تنقیح،تنقید،نحو،قراء ت اور احکام وغیرہ امور میں بہترین تفسیر ہے۔وباللّٰہ التوفیق۔