کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 603
میدان بہت وسیع ہے اور کلی اختلاف کا حق حاصل ہے۔صاحبِ’’الفوز الکبیر‘‘ نے استنباطات کو دو قسموں میں محصور کیا ہے،ان کا یہ مقالہ احکامِ مستنبطہ پر غور و فکر کرنے اور ان کی وضاحت میں ایک بڑے میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ہم نے یہ مضمون اپنی کتاب’’حصول المأمول من علم الأصول‘‘ میں ذکر کیا ہے،لہٰذا اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔[1] 4۔ایک جماعت قرآنی لغت اور نحوی ترکیب کی وضاحت کرتی ہے اور بات بات میں کلامِ عرب سے بہ کثرت اسناد و شواہد پیش کرتی ہے۔یہ علماے نحو اور علماے لغت کا منصب ہے۔ جہاں تک لغتِ قرآن کا تعلق ہے تو اسے عرب اول کے استعمالات سے اخذ کرنا چاہیے اور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم کے آثار پر کلی اعتماد کرنا چاہیے۔ رہی نحوِ قرآن تو اس میں ایک عجیب راستہ اختیار کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک جماعت نے سیبویہ کے مذہب کو اختیار کیا ہے اور جو اس کے مطابق نہیں ہے،وہ اس کی تاویل کرتے ہیں،خواہ وہ تاویل حقیقت میں کتنی ہی بعید کیوں نہ ہو۔میرے نزدیک یہ درست نہیں ہے۔جو بات سیاق و سباق کے ساتھ قوی اور موافق ہو،اسے ہی اختیار کرنا چاہیے،خواہ وہ سیبویہ کا مذہب ہو یا فرا کا،زجاج کا ہو یا دیگر نحات کا۔ ﴿وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَ الْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃ﴾ جیسی عبارتوں کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:’’ستقیمھا العرب بألسنتھا‘‘[2] [عرب لوگ اپنی زبانوں سے اسے درست کر لیں گے] اس کلمے میں تحقیق یہ ہے کہ مشہور روزمرہ کا مخالف بھی روزمرہ ہے اور قدیم عربوں کے خطبات اور محاورات میں ایسا ہوتا ہے کہ قاعدہ مشہور کی مخالفت زبان پر چل جاتی ہے اور جب قرآن اولین عربوں کی لغت میں نازل ہوا تو اگر بعض دفعہ واؤ کے بدلے یا آ جائے یا تثنیہ کی جگہ مفرد استعمال ہو جائے یا مذکر کے بجائے مونث آ جائے تو اس میں تعجب والی کون سی بات ہے۔پس اس میں تحقیق شدہ بات یہ ہے کہ آیت: ﴿وَ الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ﴾ کا ترجمہ اس کو مرفوع سمجھ کر ہی کرنا چاہیے۔واللّٰہ أعلم۔ 5۔ایک گروہ قرآن مجید میں علمِ معانی و بیان کی رو سے غور کر کے نکات دریافت کرتا اور کلام کی داد