کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 600
شخص کو تنبیہ کرنا مطلوب ہو۔بعض اوقات سلسلۂ مضمون میں اس شخص کی بعض خصوصیات بیان کر دیتے ہیں اور مخاطب کو اس شخص سے مطلع نہیں کرتے۔ایسے مقامات میں قرآن مجید پڑھنے والا قصے کا منتظر اور محتاج رہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے تو یوں فرماتے: ((مَا بَالُ أَقْوَامٍ یَفْعَلُوْنَ کَذَا وَکَذَا)) [1] [کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسا کام کرتے ہیں ؟] اسی طرح قرآن مجید کی آیت ہے: ﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ﴾ [الأحزاب: ۳۶] [اور کبھی کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں تو ان کو اپنے فیصلے کا اختیار ہو] اس آیتِ کریمہ میں زینب رضی اللہ عنہا اور زید رضی اللہ عنہ کے واقعے کی طرف تعریض و اشارہ ہے اور مندرجہ ذیل آیت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ ﴾ [النور: ۲۲] [اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھا لیں ] ایسی صورتوں میں جب تک قصہ اور واقعہ معلوم نہ ہو،مطلب واضح نہیں ہوتا۔ مجازِ عقلی: مجازِ عقلی یہ ہے کہ کلام میں کسی فعل کو ایسے شخص کی طرف منسوب کریں،جو حقیقت میں اس کا فاعل نہیں ہے اور ایسی چیز کو مفعول بہ بنائیں،جو اصل میں مفعول بہ نہیں ہے۔ان دونوں کے درمیان کسی مشابہت کے تعلق کی وجہ سے ایسا کہا جاتا ہے۔کہنے والا گویا اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ بھی اسی شمار میں ہیں اور اسی جنس سے ہیں،مثلاً کہا جاتا ہے: