کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 596
2۔آیت: ﴿لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ ﴾ کا معنی ہے:’’لَوَجَدُوْا ثَوَابًا وَمَثُوْبَۃً مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ‘‘ [یقینا وہ اس کا ثواب اور بدلہ اﷲ کی طرف سے پائیں گے] اس آیت میں بھی ﴿لَمَثُوْبَۃٌ﴾’’لَوَجَدُوْا‘‘ کے حاصلِ معنی پر دلالت کرتا ہے،اس لیے اس کا بیان کیا گیا ہے۔ 5۔بعض اوقات اصل جملہ کسی لفظ کو نکرہ کی صورت میں استعمال کرنے کا مقتضی ہوتا ہے،مگر اس کے ساتھ لامِ تعریف یا اضافت داخل کر کے تصرف کر دیتے ہیں۔اس صورت میں مفہوم نکرہ ہی کا رہتا ہے،مثلاً آیت: ﴿وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ﴾ کا مطلب ہے:’’قِیْلَ لَہُ: یَا رَبِّ‘‘ [اسے کہا گیا: اے میرے رب!] یہی مفہوم ﴿وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ﴾ میں آ گیا ہے۔اسی طرح آیت: ﴿حَقُّ الْیَقِیْنِ﴾ کا معنی ہے:’’حقُّ یَقِیْنٌ‘‘ ان کی اضافت اس لیے ہے کہ اس سے تلفظ میں سہولت ہے۔ 6۔کبھی کلام کا طبعی قاعدہ اس کے مذکر ضمیر یا اس کی تانیث یا اس کے واحد ہونے کا تقاضا کرتا ہے،مگر کلام کو طبعی قاعدے سے ہٹا کر مذکر کے بدلے مونث اور مونث کے بجائے مذکر اور واحد کی جگہ جمع لاتے ہیں اور اس میں صرف معنی و مطلب کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ 7۔کبھی تثنیہ کے بجائے واحد مذکور ہوتا ہے۔ 8۔کبھی جملے کی طبعی ساخت کا اقتضا یہ ہوتا ہے کہ جزا کو صورتِ جزا میں،شرط کو صورتِ شرطیہ میں اور جوابِ قسم کو جوابِ قسم کی صورت میں رکھا جائے۔تاہم اس میں بھی بعض اوقات تصرف کرتے ہیں اور جزا کو ایک مستقل اور مستانف جملہ بنا دیتے ہیں۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی خاص معنی کی طرف میلان ہو،مگر اس کے ساتھ کوئی ایسی بات قائم رکھتے ہیں،جو کسی نہ کسی لحاظ سے اصل بات کی طرف راہنمائی کرے۔ 9۔کبھی کلام کے اسلوب کو پلٹ دیا جاتا ہے،مثلاً جہاں اسلوبِ کلام کا مقتضا خطاب ہوتا ہے،وہاں غائب لے آتے ہیں۔ 10۔کبھی خبر کی جگہ اِنشا اور اِنشا کی جگہ خبر لے آتے ہیں،جیسے’’أَرَأَیْتَ‘‘ [کیا تو نے دیکھا] یہ اصل میں’’رؤیَۃٌ‘‘ سے استفہام ہے،کیوں کہ شروع میں ہمزہ استفہامیہ ہے۔اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اس اسلوب سے آیندہ کے کلام کو سننے کے لیے ذہن خبردار ہو جائے،جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے: کیا تم نے کچھ دیکھا؟ کیا تم نے کچھ سنا؟