کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 588
[میں تو قرآن میں پاؤں کا مسح ہی پاتا ہوں،لیکن لوگ صرف دھونے ہی کے قائل ہیں ] اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما مسح کے واجب ہونے کی طرف نہیں گئے ہیں اور نہ ہی ان کے قول میں کوئی ایسی یقینی بات ہے،جسے مسح کی رکنیت پر محمول کیا جا سکے۔اصل میں وہ اس جگہ ایک مشکل کا بیان اور ایک احتمال کا اظہار کر رہے ہیں،جس سے مقصد یہ ہے کہ وہ دیکھیں کہ علماے زمانہ اس تعارض میں مطابقت کیوں کر پیدا کرتے ہیں اور کون سی روش اختیار کرتے ہیں۔جو لوگ اَسلاف کے محاورے یا اندازِ بیان سے ناواقف ہیں،وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کو ان کا مذہب سمجھنے لگے۔حاشا وکلا۔ دوسری نکتے کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی روایات کی بلا ہمارے دین میں داخل ہو گئی ہے،حالانکہ یہ قاعدہ بنا دیا گیا ہے کہ ان کی کتاب کی تصدیق کرو اور نہ تکذیب۔اس قاعدے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں : 1۔قرآن کی تعریض کا بیان جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں مل جائے تو اہلِ کتاب سے نقل کرنے کے ہم مرتکب نہ ہوں۔ 2۔تعریض کے اقتضا کے مطابق ہی بیان محدود رہے،تاکہ اس کی تصدیق قرآنی شہادت سے ہو سکے۔اس سے زیادہ بیان سے زبان کو روکنا چاہیے۔ یہاں ایک نہایت لطیف نکتہ ہے،جسے ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ قرآن میں کبھی کسی جگہ ایک قصے کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ اس کی تفصیل ہوتی ہے۔لہٰذا اس تفصیل سے اجمالِ سابق کی تفصیل کر سکتے ہیں اور اس اجمال سے تفصیل کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں۔
[1] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۴۵۸) یہ اثر ضعیف اور منکر ہے۔علاوہ ازیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اس قول سے رجوع بھی مروی ہے۔دیکھیں : تفسیر ابن کثیر (۲/ ۳۱)