کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 582
کرنا یا جو اسما آیت میں بہ طور مبہم مذکور ہوں،ان کا تعین کرنا یا کسی قرآنی کلمے کا تلفظ کرنا یا قرآنی سورتوں اور آیتوں کے فضائل بیان کرنا یا اوامر قرآنی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح تعمیل کی ہے،اس کی شکل بتانا،اس قسم کی ساری باتیں درحقیقت اسبابِ نزول میں شامل نہیں ہیں۔ مفسر کے لیے دو چیزوں کا شرط ہونا: مذکورہ بالا باتوں کا احاطہ کرنا مفسر کے لیے ضروری نہیں ہے۔ہاں اس کے لیے دو باتیں ضروری ہیں : 1۔جن قصص و واقعات کے اشارے قرآنی آیات میں آئے ہیں،ان کا اسے علم ہو،کیوں کہ آیات کے اشارے کا سمجھنا واقعات کے علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ 2۔اس قصے کے وہ اجزا بھی جاننے چاہییں جن سے عام باتوں کی تخصیص ہوتی ہے یا کوئی اور فائدہ حاصل ہوتا ہے،مثلاً کلام کو اس کے ظاہری معنی سے پھیرنے کے وجوہ کو جاننا،کیوں کہ اس کے بغیر آیات کے اصل مقصد کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ بات جان لینا چاہیے کہ حدیث میں انبیا کے قصص کم بیان ہوئے ہیں۔وہ لمبے چوڑے قصے جومفسرین بیان کرتے ہیں وہ اہلِ کتاب کے علما سے منقول ہیں۔إلا ما شاء اللّٰه۔ صحیح بخاری میں مرفوعاً مروی ہے: ((لَا تُصَدِّقُوْا أَہَلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوھُمْ)) [1] [اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب] اسبابِ نزول میں جزوی واقعات کا ذکر: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم مشرکین اور یہود کے مذاہب اور ان کی جاہلانہ عادات کے جو جزوی قصے بیان کرتے ہیں،اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ عقائد و عادات واضح ہو جائیں۔ایسے مواقع پر وہ کہہ دیا کرتے ہیں : ’’نزلت الآیۃ في کذا‘‘ [اس کے بارے میں اس طرح آیت نازل ہوئی] اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آیت اس طرح کے واقعات سے متعلق اتری۔ایسا کہنے سے ان کی مراد عام ہوتی ہے،خواہ سببِ نزول وہی واقعہ ہو یا اسی طرح کا کوئی اور واقعہ یا آیت اس