کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 574
حاصل یہ کہ ملت ابراہیمی کی عبادات،طہارت،نماز،روزہ،زکات اور حج میں بڑا فتور پیدا ہو گیا تھا۔قرآنِ عظیم نے اس بد نظمی کو دور کر دیا اور اصلاح و درستی کے ذریعے سے صحیح طریقے جاری کر دیے۔تدبیر منزل میں نقصان دہ رسوم اور ظلم و سرکشی کا رواج تھا۔شہریت کا نظام بھی بگڑا ہوا تھا۔قرآن مجید نے اس کے لیے اصول منضبط کیے اور حد بندی فرمائی۔اس ضمن میں کئی قسم کے کبائر اور اکثر صغائر کا ذکر فرمایا۔نماز کے مسائل کا بہ طور اجمال ذکر کیا اور اقامتِ صلات کا حکم فرما دیا۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان،بناے مساجد،جماعت اور اوقاتِ نماز کی تفصیل فرمائی۔ مسائلِ زکات بھی بہ طور اختصار بیان کیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیل فرمائی۔روزے کا بیان سورۃ البقرہ میں،حج کا اس سورت اور سورۃ الحج میں،جہاد کا سورۃ البقرۃ،سورۃ الانفال اور دوسرے متفرق مقامات میں،حدود کا سورۃ المائدہ اور سورۃ النور میں،میراث کا سورۃ النساء میں اور نکاح و طلاق کا سورۃ البقرۃ اور سورۃ الطلاق میں ذکر کیا گیا ہے۔ جب تم مضامین کی یہ قسم جس کا فائدہ پوری امت کے لیے عام ہے،جان چکے تو اب دوسری قسم کی طرف توجہ کرو اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب دیتے ہیں یا کسی موقع پراہلِ ایمان اپنی جان اور مال صرف کرتے اور منافق بخل کرتے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے،تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدح اور منافقین کی مذمت کرتے ہوئے انھیں دھمکایا۔جب دشمنوں پر فتح ہوتی اور مومن ان کی ایذا سے محفوظ رہتے تو اللہ تعالیٰ مومنوں پر اپنا احسان جتاتا اور انھیں وہ نعمتیں یاد کرواتا ہے۔اس سلسلے میں وہ مقامات بھی ہیں،جہاں زجر و تنبیہ یا طنز و اشارے یا امر و نہی کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مناسب آیات نازل فرمائیں۔ ایسے مقامات پر مفسر کو چاہیے کہ وہ ان سے متعلق قصوں کو مختصر بیان کر دے،جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،چنانچہ سورۃ الانفال میں واقعۂ بدر کی طرف اشارہ ہے،آل عمران میں احد کی طرف،احزاب میں غزوہ خندق کی طرف،سورۃ الفتح میں صلح حدیبیہ کی طرف اور سورۃ الحشر میں بنو نضیر کی طرف اشارے ہیں،اسی طرح سورۃ البراء ۃ میں فتح مکہ اور تبوک کے لیے ابھارا گیا ہے۔