کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 567
[بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے] 2۔دوسرا گروہ وہ ہے جو اسلام میں ضعف و کمزوری کے ساتھ داخل ہوتے ہیں،مثلاً وہ اپنی قوم کی عادات کی اتباع کرتے رہتے ہیں اور ان کی موافقت کے عادی رہتے ہیں۔اگر ان کی قوم ایمان لائے تو وہ بھی ایمان لے آتے ہیں اور اگر وہ کفر کریں تو یہ بھی ان کے ساتھ مل کر کفر کرتے ہیں۔دنیا کی لذتوں کی اتباع کا ان کے دلوں پر ایسا ہجوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جگہ باقی نہیں بچتی۔حرصِ مال،حسد اور کینہ وغیرہ ان کے دلوں پر یوں مسلط ہوتے ہیں کہ مناجات کی چاشنی اور عبادات کی برکات ان کے دلوں پر کچھ اثر نہیں کرتی۔وہ لوگ امورِ دنیا میں اس قدر شغف رکھتے ہیں اور ان میں یوں مشغول ہوتے ہیں کہ آخرت کے معاملے کا اہتمام کرنے،اس کی امید رکھنے اور اس کی فکر میں مگن ہونے کی ان کے پاس فرصت نہیں رہتی ہے۔ان کے دلوں میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں واہی قسم کے گمان اور رکیک قسم کے شبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں،لیکن یہ اس درجے کے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے گلوں سے اسلام کا پٹا اتار دیں اور کلی طور پر اس سے خارج ہو جائیں۔ان شکوک کا منشا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں احکامِ بشریت کا جاری ہونا ہے اور ملتِ اسلامیہ کا اطرافِ ممالک پر بادشاہوں کے غلبے وغیرہ کا ظاہر ہونا ہے۔ان کو اپنے قبیلوں اور خاندانوں سے اس قدر محبت تھی کہ وہ ان کی نصرت،تقویت اور تائید میں ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگاتے تھے،اگرچہ اس میں اہلِ اسلام کی مخالفت ہی ہوتی ہو اور وہ اس کشمکش میں اسلام کے معاملے میں سستی کرتے تھے۔نفاق کی یہ قسم نفاق عملی اور نفاق اخلاقی کہلاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلی قسم کے نفاق (نفاقِ اعتقادی) کے بارے میں کسی کو اطلاع اور علم ہونا ممکن نہیں ہے،کیوں کہ یہ علمِ غیب کی قبیل سے ہے اور وہ چیز جو دلوں میں مرکوز اور پیوست ہو،اب اس پر اطلاع پانا ممکن نہیں ہے۔جہاں تک دوسری قسم کے نفاق کا تعلق ہے تو وہ خصوصاً ہمارے دور میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔مندرجہ ذیل حدیث اور اس جیسی کئی احادیث میں اسی نفاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: