کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 565
کا بھی یہی موقف ہے۔معنوی تحریف کا مطلب یہ ہے کہ تاویلِ فاسد کرنا،یعنی سینہ زوری کرتے ہوئے اور صراطِ مستقیم سے انحراف کرتے ہوئے اس کو دوسرے معنی پر محمول کرنا۔ اس امت میں یہودیوں کا نمونہ: بہرحال آپ اگر یہودیوں کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ علماے سو کو دیکھ لیں،جو طالبِ دنیا ہیں،سلف کی تقلید کے عادی ہیں،کتاب و سنت کی نصوص سے اعراض کرنے والے ہیں،کسی عالم کے استحسان میں تعمق اور تشدد کو اختیار کرتے ہیں،شارع معصوم کے کلام سے بے پروا ہو جاتے ہیں اور موضوع احادیث اور فاسد تاویلات کی اقتدا کر کے اپنی ہلاکت کا سامان کرتے ہیں۔ذرا غور کریں ! یقینا یہ وہی لوگ ہیں۔ نصاریٰ کی گمراہی: نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے،ان کی گمراہی کے اسباب درج ذیل تھے: 1۔وہ یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی تین شاخیں اور حصے ہیں،جو ایک لحاظ سے متغیر اور ایک لحاظ سے متحد ہیں۔وہ ان تین شاخوں اور حصوں کا نام’’أقانیم ثلاثہ‘‘ رکھتے تھے: 1۔ایک باپ جو عالم کے مبدا و آغاز کے مقابلے میں ہے۔ 2۔دوسرا ابن جو صادر اول کے مقابلے میں ہے،جس کا معنی عام ہے اور وہ تمام موجودات کو شامل ہے۔ 3۔تیسرا روح القدس،جو اقنوم عقولِ مجردہ کے مقابلے میں ہے۔ وہ یہ اعتقاد کرتے تھے کہ’’اقنوم ابن‘‘ نے روحِ عیسیٰ علیہ السلام کی زرہ پہنی ہے،یعنی جس طرح جبریل علیہ السلام آدمی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں،ایسے ہی ابن روحِ عیسیٰ علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔پس عیسیٰ علیہ السلام الٰہ اور خدا ہیں،ابن اللہ بھی ہیں اور بشر بھی ہیں۔آپ علیہ السلام پر الٰہی اور بشری دونوں قسم کے احکام جاری ہوتے ہیں،اس سلسلے میں وہ انجیل کی بعض نصوص کو دلیل بناتے تھے۔ 2۔ان کی گمراہی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اس پریقین رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام قتل ہو گئے ہیں،جب کہ فی الواقع عیسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ان کو اشتباہ لاحق ہو گیا ہے۔انھوں نے ان کے آسمان