کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 562
ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے بندوں پر جس چیز کا القا اہم سمجھا،اسے بیان کر دیا،خواہ وہ مقدم ہو یا مؤخر۔ آیاتِ مخاصمہ: عام مفسرین کا یہ طریقہ ہے کہ وہ آیاتِ مخاصمہ اور آیاتِ احکام میں سے ہر ایک آیت کو کسی قصے کے ساتھ جوڑتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ قصہ اس آیت کا سببِ نزول ہے۔مگر اس معاملے میں تحقیق شدہ بات یہ ہے کہ نزولِ قرآن کا اصل مقصود نفوسِ بشر کی تہذیب،عقائدِ باطلہ کی بیخ کنی اور اعمالِ فاسدہ کی نفی کرنا ہے۔پس مکلفین میں عقائدِ باطلہ کا وجود اور باہمی معاملات میں مظالم کا واقع ہونا آیاتِ احکام کے نزول کا سبب ہے،نیز بندوں کا اللہ کی نعمتوں،اللہ کے ایام،موت اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کے ذکر کے بغیر متنبہ اور خبردار نہ ہونا آیاتِ تذکیر کے نزول کا سبب ہے۔ ان مفسرین نے جزوی واقعات کی خصوصیات میں جو تکلف کیا ہے،اس کی کوئی خاطر خواہ گنجایش نہیں ہے،سوائے چند آیات کے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے یا اس سے پہلے کے دور میں پیش آمدہ واقعات میں سے کسی واقعے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور وہ اشارہ سن کر سامع کو جس چیز کا انتظار ہوتا ہے،وہ اس واقعے کے بیان کے بغیر زائل نہیں ہوتا۔ مشرکین کی گمراہیوں کا بیان: قرآن مجید میں جن چار گمراہ فرقوں یعنی مشرکین،منافقین،یہود اور نصاریٰ کے ساتھ مخاصمے کا بیان ہوا ہے،اس کی دو قسمیں ہیں : 1۔باطل عقیدے کو بیان کیا جاتا ہے،اس کی قباحت اور برائی کو واضح کر کے صرف اس پر انکار کیا گیا ہے۔ 2۔ان کے شبہات کو واضح کر کے برہانی یا خطابی دلائل کے ساتھ ان کو حل اور ان کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ مشرکین اپنے آپ کو حنفا کہتے اور ملتِ ابراہیمی کا معتقد ہونے کا دعوی کرتے تھے،مگر جمہور مشرکین اس ملت کے شعائر کو ترک کر چکے تھے اور صورتِ حال یہ بن چکی تھی کہ یہ شعائر ان کے