کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 557
کے طور اور طریقے پر کسی چیز کی رعایت رکھے بغیر (کلام) واقع ہوتا ہے،جیسے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کلام کرتے ہیں۔مگر ہر کلام کو ایسی چیز پر ختم کیا جاتا ہے،جو مبنی بہ اختتام ہوتی ہے۔اس جگہ اس کی بنیاد یہ ہے کہ لغتِ عرب میں جس جگہ سانس ختم ہوتا ہے اور نشاطِ کلام کا متلاشی ہوتا ہے،وہاں پر وقف کیا جاتا ہے۔چنانچہ محلِ وقف میں مستحسن یہ ہے کہ سانس مدہ پر ختم ہو،لہٰذا سورتوں اور آیات میں اسی جہت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ قرآن مجید میں تکرارِ مطالب: قرآن مجید میں تکرارِ مطالب اس لیے ہے کہ سامع کو فائدہ پہنچانا،جو ہمارا مطلوب و مقصود ہے،دو قسم کا ہوتا ہے: 1۔پہلی قسم وہ ہے جس کا مقصود محض نامعلوم چیز کی تعلیم دینا ہے،تاکہ مخاطب مجہول کا حکم معلوم کر لے اور وہ نامعلوم چیز معلوم ہو جائے۔ 2۔اس کی دوسری قسم کا مقصود مخاطب کے لیے اس علم کی صورت کا استحضار ہوتا ہے،جو علم اس کے ادراک میں ہوتا ہے،تاکہ وہ اس سے فراوانی کے ساتھ لذت حاصل کرے اور اس علم کا رنگ سب پر قوی طریقے سے غالب آ جائے۔ قرآن کریم نے علوم خمسہ،جن کا بیان آگے آ رہا ہے،میں سے ہر ایک کی بہ نسبت فائدہ پہنچانے کی مذکورہ دو قسموں کا ارادہ فرمایا ہے۔یعنی نامعلوم کی تعلیم جاہل کی نسبت اور اس تکرار کے سبب نفوس کو مہذب کرنا عالم کی نسبت فرمایا ہے،مگر اکثر احکام میں تکرار نہیں ہے،کیونکہ وہاں پر دوسری قسم والا فائدہ پہنچانا مطلوب نہیں ہے۔لہٰذا شریعت میں تکرارِ تلاوت کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ محض فہم پر اکتفا کرنا۔اتنا فرق کر دیا گیا ہے کہ اکثر احوال میں ان مسائل کی تکرار تازہ عبارت اور جدید اسلوب کے ساتھ اختیار کی گئی ہے،تاکہ وہ دلوں میں اچھی طرح بیٹھ جائے اور ذہنوں میں لذت کا باعث بنے۔اگر ایک لفظ کی تکرار ہو تو یہ ایک ایسی چیز بنتی ہے کہ بہ طور وظیفہ اس کی تکرار کی جاتی ہے۔تعبیرات و تغایرِ اسلوب کے اختلاف کی صورت میں ذہن غور و خوض کرتا ہے اور دل کلی طور پر اس میں مشغول ہو جاتا ہے۔