کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 556
سانس کا ایسے مدہ پر پورا ہونا جو مدہ ایک حرف پر معتمد ہو،اس سے ایک متسع فاقیہ بنتا ہے،جس کا طبع ذوق کرتی ہے اور چند بار اس کا اعادہ کرنے سے لذت حاصل کرتی ہے۔اگرچہ وہ مدہ ایک جگہ الف ہو،ایک جگہ واؤ یا یا ہو اور وہ آخری حرف اگرچہ ایک جگہ یا ہو اور ایک جگہ جیم یا قاف ہو۔اسی طرح کلام کے آخر پر الف کے ملنے سے ایک متسع قافیہ بنتا ہے،جس کے اعادے سے لذت محسوس ہوتی ہے گو حرف کی صورت مختلف ہو،جیسے’’حدیثا‘‘ اور’’بصیرا‘‘ ہے۔ اس صورت میں اگر التزام موافقت روی کام آتا ہے تو وہ التزام بلا ملتزم کی قبیل سے ہو گا،جیسے سورت مریم اور سورۃ الفرقان کے شروع میں واقع ہوا ہے،اسی طرح آیات کا ایک حرف پر توافق،جیسے سورت قتال (محمد) سورت ن (والقلم) اور سورۃ الرحمن میں ہے،لذت دیتا ہے۔اسی طرح ایک جملے کے بعد دوسرے جملے کا اعادہ ایک گونا لذت عطا کرنے والا ہے،جیسے سورۃ الشعراء،سورۃ القمر،سورۃ الرحمن اور سورۃ المرسلات میں ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سامع کے ذہن کو خوش کرنے کے لیے اور اس کلام کی لطافت سے آگاہ کرنے کے لیے سورت کے آخری فواصل کو شروع کے فاصلوں سے مختلف کر دیا جاتا ہے،جیسے سورت مریم کے آخر پر ﴿اِدًّا﴾ اور ﴿ھَدًّا﴾ ہے،﴿کِرَامًا﴾ اور ﴿سَلٰمًا﴾ سورۃ الفرقان کے آخر پر اور ﴿طِیْنٍ﴾،﴿سٰجِدِیْنَ﴾ اور ﴿یَنْظُرُوْنَ﴾ سورت صاد کے آخر پر ہے،جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ ان سورتوں کے شروع میں فواصل آخر سے مختلف ہیں۔پس اکثر سورتوں میں اسی وزن اور قافیے کو،جس کی تعبیر و بیان گزر چکا ہے،معتبر سمجھا گیا ہے۔ اگر آیت کے آخر پر کوئی ایسا حرف ہو،جو قافیہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ قافیہ بن جائے گا،ورنہ اسے ایسے جملے کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے،جس میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر یا مخاطب کے لیے کوئی تنبیہ ہوتی ہے،ایسی بعض جگہوں میں اِطناب (مخصوص فائدے کے لیے مطلب سے زیادہ الفاظ لانا) کو کام میں لایا جاتا ہے،کبھی تقدیم و تاخیر کو استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی قلب و زیادت کا سہارا لیا جاتا ہے،جیسے’’الیاس‘‘ اور’’طور‘‘ کو ﴿اِِلْ یَاسِیْن﴾ اور ﴿طُوْرِ سِیْنِیْن﴾ میں۔ بعض سورتوں میں قافیے اور وزن کی اس قسم کو استعمال میں نہیں لایا جاتا،بلکہ خطبا کے خطبوں کی طرز اور نکتہ دان لوگوں کے طریقے پر ان کو بیان کیا جاتا ہے۔بعض سورتوں میں عرب نامور لوگوں