کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 554
﴿یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ﴾ [البقرۃ: ۴۰] [اے بنی اسرائل! میری نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی] پھر انہی الفاظ کے ساتھ اس جھگڑے کو ختم کیا۔پس اس کلام سے مخاصمے کا آغاز اور اسی کلام کے ساتھ اس کا اختتام بلاغت میں ایک عظیم مقام رکھتا ہے۔اسی طرح سورت آلِ عمران میں اہلِ کتاب سے اس آیت کے ساتھ مخاصمے کو شروع کیا: ﴿اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ﴾ [آل عمران: ۱۸] [بے شک دین اللہ کے ہاں صرف اسلام ہے] تاکہ محلِ نزاع کی تصویر کشی اور اس مدعا پر ہونے والے قیل و قال کا توارد اور جواب واقع ہو جائے۔ سورتوں کی آیات پر تقسیم: اکثر سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جاری ہوئی ہے کہ سورتوں کو آیات پر تقسیم کیا گیا ہے،جس طرح قصائد کو شعروں پر تقسیم کیا جاتا ہے۔آیات اور اَبیات (شعروں) میں زیادہ سے زیادہ جو فرق کیا گیا ہے،وہ یہ ہے کہ اَبیات ان عروض اور قافیوں کے ساتھ مقید ہیں،جن کی خلیل نے تدوین کی ہے اور شعرا نے ان (عروض و قوافی) کو اس (خلیل) سے لیا ہے،جبکہ آیات کی بنا اجمالی وزن اور قافیے پر ہے نہ کہ عروضیوں کے افاعیل و تفاعیل پر،جو طبعی امر کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتی ہیں اور نہ ان کے اوزان اور قافیوں پر جو ایک مصنوعی اوراصطلاحی امر ہے۔فطرتِ سلیمہ موزون قصیدوں،عمدہ رجزوں اور اس طرح کی دیگر چیزوں سے لطف کا ادراک کرتی ہے اورحلاوتِ ذوق ظاہر کرتی ہے۔جب (فطرتِ سلیمہ) اس لطف اندوزی کے سبب پر غور کرتی ہے تو اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ دو کلام جن کے بعض اجزا بعض کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں،انھوں نے مخاطب کے نفس کو لذت مہیا کی ہے اور اسے اس طرح کے کلام کا شوقین بنا دیا ہے۔اس کے بعد جب اسی توافقِ اجزا کے ساتھ دوسرا شعر اس کے نفس پر واقع ہو اور امرِ منتظر وجود میں آیا تو اس کی لذت دوبالا ہو گئی۔جب دونوں شعر قافیہ بندی میں مشترک ہوں تو اس کی لذت سہ چند ہو جاتی ہے۔پس اَبیات کی لذت کا سبب آدمیوں کی پرانی فطرت کا یہ راز ہے۔معتدل علاقوں کے باسیوں کی سلیم طبائع اس پر