کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 539
[خوبصورت خط کے ساتھ آغاز شبہات کے خط نے اگرچہ دامنوں کو ٹھوڑی کے نیچے والے پانی کے گھڑے سے دھویا ہوا ہے] بوصل و فصل کہ در غبغب وذقن دارند فتادہ عقل بگردابہائے حیرانی [ٹھوڑی اور اس کے نیچے والے ابھرے ہوئے کنارے میں جو وصل و فصل ہے،اس نے عقل کو حیرانی کے بھنوروں میں گرا دیا ہے] زگو شہائے صدف پارہ پر زشوشہ نور شکستہ قطبی الماس و در عمانی [سیپی کے ٹکڑوں جیسے کانوں سے جو شوشہ نور سے پر ہیں،عمانی ہیرے جواہرات کو مات کر رہے ہیں ] لہٰذا میں دیکھتا ہوں کہ ہر صدی میں اہلِ علم کی ایک جماعت کتاب اللہ کی تفسیر کی دامن گرفتہ رہی اور اس کلامِ معجز نظام کی خدمت کے ساتھ دونوں جہان کی کامیابی کا سرمایہ جمع کرتی رہی۔انھوں نے ہر زبان میں اس کے احکام کی تبلیغ کی۔اس کے دلائل و مخائل [آثار] کی اشاعت و اذاعت میں دور و نزدیک کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ہر نقیر و قطمیر (معمولی مسئلے) میں اس کو مضبوط تھاما اور علومِ قرآن کو جداگانہ تالیفات میں ایک ایک کر کے شمار کیا۔ شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے،جس کا نام انھوں نے’’الإتقان في علوم القرآن‘‘ رکھا ہے اور اس کتاب کو اپنی تفسیر کبیر’’مجمع البحرین ومطلع البدرین‘‘ کا مقدمہ قرار دیا ہے۔انھوں نے اس کتاب میں علومِ قرآن کی اسی (۸۰) قسمیں تحریر کی ہیں اور ان کے آخر پر کہا ہے: ’’لو نوعت باعتبار ما أدمجتہ في ضمنھا لزادت علی الثلاث مائۃ،وغالب ھذہ الأنواع فیھا تصانیف مفردۃ،وقفت علی کثیر منھا‘‘[1]انتھیٰ۔ [جن چیزوں کو میں نے ان انواع میں مدغم کر دیا ہے،اگر میں ان کو الگ الگ انواع شمار کرتا تو یہ انواع تین سو سے تجاوز کر جاتیں۔ان میں سے اکثرانواع میں علاحدہ تصانیف لکھی گئی ہیں،جن میں سے اکثر میرے علم میں ہیں ]