کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 53
دست بہ دست متداول ہیں۔یہ منجملہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ علم بہت ہے،مگر عمل بالکل نہیں ہے۔ سید محمد حقی نازلی رحمہ اللہ [1] [المتوفی ۱۳۰۱ھ] نے سچ کہا ہے: ‘’إن القرآن لغریب في ھذا الزمان مع أن الثواب علی قراء تہ حاصل لمن فھم،ولمن لم یفھم بالکلیۃ،للتعبد بلفظہ،بخلاف غیرہ من الأذکار والأدعیۃ،فإنہ لا یثاب علیہ إلا من فہمہ،ولو بوجہ ما،وعلیہ أکثر العلماء‘‘ [2] [اس دور میں قرآن مجید یقینا اجنبی ہے،باوجودیکہ اس کی قراء ت و تلاوت کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے،جس نے اس کو سمجھا اور اس کو بھی جس نے اسے بالکل نہ سمجھا،کیونکہ اس کے الفاظ کو پڑھنا بھی عبادت ہے،جبکہ دیگر اذکار اور دعاؤں کا اجر و ثواب اسی شخص کو ملتا ہے،جو ان کو کسی نہ کسی طرح سمجھ کر پڑھتا ہے۔اکثر علما کا یہی موقف ہے] اس صورتِ حال میں یہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان اتنے افضل،عظیم تر اور اشرف کلام کو اپنا وظیفہ بنا لے۔قاریِ قرآن گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ کلام بہت آسان کر دیا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾ [القمر: ۱۷] [اور بلا شبہہ یقینا ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا،تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟] ورنہ کسی زبان میں یہ طاقت نہ تھی کہ وہ کمال عظمت و مہابت کے سبب اس کے ساتھ تکلم کر سکتی۔قرآن خواں کے دونوں پہلوؤں میں گویا نبوت مندرج کی جاتی ہے،بس اتنا فرق ہے کہ وحی نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فَخُذْھَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِھَا﴾ [الأعراف: ۱۴۷]
[1] ان کی تالیف کا نام’’خزینۃ الأسرار الکبریٰ‘‘ ہے،جب کہ کتاب’’إیضاح المکنون ذیل کشف الظنون‘‘ میں اس کا نام’’خزینۃ الأسرار جلیلۃ الأذکار‘‘ لکھا ہوا ہے۔[مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ] [2] خزینۃ الأسرار للنازلي (ص: ۴) [مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ]