کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 526
متکلمین کی عبارتوں کے فہم میں بہت سی مشقت اٹھا کر مطمئن ہیں اور وہ کتاب و سنت کے حق کے درک میں تعمق اور وہم میں معلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے کوئی انسان چاہتا ہے کہ وہ آگے بڑھے،مگر اللہ نے اس بات کا انکار کیا ہے،سوائے اس کے کہ وہ اس کی تاخیر ہی میں اضافہ کرے۔وہ گناہ کے ساتھ عزت چاہتا ہے۔اس کے پاس علم ہے اور نہ وہ اپنے لیے کوئی دوست اورمددگار ہی پاتا ہے۔تم انھیں دیکھو گے کہ ان کے ناک (بہ وجہ کراہت) سکڑے ہوئے ہیں،دل حق کے منکر ہیں اور ان سے صادر ہونے والے اقوال جعلی اور جھوٹی باتوں پر مشتمل ہیں۔جب تم حق کی طرف ان کی راہنمائی کرتے ہو تو وہ اندھے اور بہرے بن جاتے ہیں،یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر نگران مقرر نہیں فرمائے،جو ان کے اقوال و اعمال کو سن کر اور دیکھ کر احاطہ تحریر میں لاتے ہوں۔ان کے اندر اگر کوئی قرآن و سنت کا عالم ہو تو اسے ہر اینٹ اور پتھر سے مارا جاتا ہے۔جاہل بچے اور ناتجربہ کار لوگ ان سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ان کے نزدیک کامل شخص مذموم ہے۔ اللہ کی قسم! یقینا یہ وہ دور ہے،جس میں چپ سادھ لینا،گھروں کا ہو کر رہ جانا اور جو علم ہے،اس پر عمل کرتے رہنا ہی لازم ہے،اگر صحیح حدیث میں یہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتا: ((مَنْ عَلِمَ عِلْماً فَکَتَمَہُ،ألْجَمَہُ اللّٰہُ بِلِجَامٍ مِّنْ نَارٍ))[1] [جس نے کوئی علم پڑھا،پھر اسے چھپا لیا تو اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) اسے آگ کی لگام دے گا] مجھ سے پہلے بھی اہلِ علم کی ایک بہت بڑی تعداد میرے اس شکوے جیسا شکوہ کر چکی ہے۔ شکوت وما شکوی لمثلي عادۃ ولکن تفیض الکأس عند امتلائھا [میں نے شکوہ کیا،حالانکہ شکوہ کرنا مجھ جیسے آدمی کی عادت نہیں ہے،لیکن جب جام لبا لب بھر جاتا ہے تو وہ بہنے لگتا ہے] تو لیجیے! اب اللہ عز و جل پر بھروسا کرتے ہوئے میں اس کتاب کے مقاصد کو تحریر کرنے کی طرف لوٹتا ہوں۔وما تو فیقي إلا باللّٰہ وإلیہ مآب۔