کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 516
لیکن ہر ہفت کردہ کے حسن کے لیے نظر نظر دوسری نظر ہے۔روستائی کے لیے حسن کی دل فریبی کا اندازہ اثر کے دل میں دوسرا اثر ہے۔خداے بے نیاز کی رحمت جو بے نواؤں کا سازوسامان اور اس کی نعمت ہر دانا اور نادان پر بے انتہا ہے۔اس مینو مثال کی نخل بند ی ایسے رضوان پر ارزانی رکھا کہ اس کی نسیم نفس کی جنبش نے نامہ نگاری کے نیم شگفتہ غنچہ کو پھول کاچمن بنادیا اور ملت حنیفیہ سمحہ سہلہ بیضاء کے بدن میں ایک تازہ روانی آئی۔کوتاہ نظر جو اپنے پاؤں کے آگے نہیں دیکھتے،گمان بھی نہیں کرتے تھے کہ نامہ نگاری کے کمند کے لیے اس چوٹی سے زیادہ اوپر کوئی نشست ہے اور افادے کے باز کی رسی کے لیے اس پایہ سے بلند ترکوئی بیابان ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے،جب کہ’’کل میسر لما خلق لہ‘‘ کے مضمون کے مطابق زید و عمرو کے خون گرم نے جو دروازے کھولے ہیں بند نہیں کیے جاسکتے اور جو بندش اس دروازے میں رکھی ہے،کوشش کے بازو کے زور سے کھولی نہیں جاسکتی۔ اس نامہ مبارک کے کاتب نواب والا جاہ امیر الملک سید محمد صدیق حسن خاں بہادر ہیں کہ زبان ناطقہ جن کی تعریف سے تر ہے اور بیان کا میدان جن کے اوصاف کے ہجوم سے تنگ۔یہ نئی بنیاد اس لیے رکھی ہے کہ اس منصب کے مدعیوں کی آموز گارانہ گوشمالی کریں اور خود پسندی کے تیرہ انجاموں کے ہاتھ میں مشعل رکھیں اور ایک عالم کو جو پہلے لوگوں کے دفتروں کی جستجو میں تن کو کشاکش میں دیے ہوئے ہیں،اس چھوٹے سے رسالے کے مطالعہ سے دیپ کا دھواں کھانے سے بے نیاز کر دیں۔میں اور میرا ایمان ہے کہ ا ن کا باسخاوت وجود اﷲ کے بہت بڑے احسانوں میں سے ہے اور اس کے بابرکات افادات سنت کی جادہ پیمائی میں ہے،بے راہ روی میں نہیں۔اس اخیر دور میں ممالک کے نظم ونسق کے مشغلے کے باوجود شریعت مطہرہ کی تدوین میں شغل رکھنا اور تمام جاہ و شرف کو کچھ نہ سمجھنا کس کی بہادرانہ ہمت ہے۔اﷲ کارساز نے خان والا شان محمد عبدالرحمن خان صاحب کو ممتازِ زمانہ بنایا کہ مؤلف سے دوبارہ اجازت کا خواستگار ہوا اور تازہ لطافت کے ذریعے پہلی طباعت کے رنگ بہار کو توڑدیا اور یغما کا دستر خوان آراستہ کردیا اور صاحب دلوں کے دل کو حمیت اسلامی کی روشنی سے روشن کردیا اور مجھ نامہ سیاہ کو،جو زیادہ کو کم سے اور دریا کو نم سے نہیں پہچانتا،خاتم الطبع لکھنے کا موقع دیا اور عزیزوں کی مجلس میں باریاب کیا۔مولوی عبدالعلی صاحب مدراسی جو فواضل کی آرزو کی انتہا اور فضائل کی آبروہیں،تصحیح کے وقت جب اپنی دست گاہ کی کشایش کو میری دست گاہ