کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 508
اس کی پیروی کا وجوب لازم نہیں آتا،جیسا کہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہے اور دوسرے مجتہد پر اس کی پیروی واجب نہیں ہے،بلکہ مقلد پر بھی اس کی پیروی اس اجتہاد میں بہ خصوصہ واجب نہیں ہے۔حجیتِ اجماع کے قائلین اختلاف رکھتے ہیں۔ایک جماعت،جن میں حنفیہ بھی ہیں،اس طرف گئے ہیں کہ حجت قطعی ہے۔ایک قوم نے ظنی قرار دیا ہے۔کچھ نے تفصیل کی ہے کہ معتبرین کا متفق علیہ حکم قطعی ہے اور سکوتی ظنی ہے۔اجماع کے لیے مستند ضروری ہے اور جس نے بغیر مستند جائز قرار دیا ہے،اس کی بات کمزور ہے۔مجتہد پر اجماع کے لیے مستند کی بحث کے وجوب میں اختلاف ہے۔ایسے ہی اجماع میں بدعتی مجتہد کے اعتبار کے بارے میں اختلاف ہے۔اجماعِ صحابہ کے انعقاد میں تابعی کے ان کے زمانے کے مجتہد کو جاننے کی صورت میں اور اس میں کہ اجماع صحابہ حجت ہو گا یا نہیں ؟ ایسے ہی اہلِ مدینہ کے علے انفراد ہ اجماع کے بارے میں اختلاف ہے۔اجماع سکوتی کے قبول کرنے نہ کرنے کے بارے میں بارہ قول ہیں اور ظاہر اس کی عدمِ حجیت ہے۔نیز اس چیز پر اجماع کے جواز کے بارے میں اختلاف ہے،جس پر اس کے خلاف اجماع ہوا ہو اور اہلِ عصر کے اس مسئلے میں دو قول پر اختلاف کرنے کے بعد تیسرا نیا قول پیدا کرنے کے جواز میں بھی اختلاف ہے۔ مختلف فنون میں اس فن کے اہل کا اجماع معتبر ہے،دوسروں کا نہیں۔مسائلِ فقہیہ میں تمام فقہا کا قول معتبر ہوگا،مسائلِ اصولیہ میں تمام اصولیوں کا قول،مسائل نحو یہ میں تمام نحویوں کا قول اور غیراہلِ فن عوام کے حکم میں ہیں۔ایک جماعت نے ان کا اعتبار کیا ہے اور ایک جماعت نے نہیں اور درست اس کا عدمِ اعتبار ہے۔اہلِ اجماع مجتہدین میں سے ایک کا اختلاف بھی ناقضِ اجماع ہے۔جمہور نے کہا ہے کہ نہ وہ اجماع ہوگا اور نہ حجت۔بطریق آحاد منقول اجماع کی حجیت میں اختلاف ہے۔جمہور تو اتر کی تعداد کی شرط لگاتے ہیں۔کسی قائل کا قول’’لا أعلم خلافا بین أہل العلم في کذا‘‘ مفیدِ اجماع نہیں ہے اور جس نے یہ کہا ہے،اس کا قول فاسد ہے۔یہ اجماع کا بیان ہے۔ قیاس: رہا قیاس توفقہا کی اصطلاح میں وہ اثباتِ حکم یا اس کی نفی میں معلوم کو معلوم پر دونوں کے درمیان کسی جامع حکم یا صفت کی و جہ سے محمول کرنا ہے۔جمہور محققین نے اسے مختار قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر قیاس کی حجیت پر اتفاق ہے اور اختلاف قیاس شرعی میں ہے۔جمہور