کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 498
کپڑے،قمیص اور پگڑی نہ پہنے۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد تک: اور نہ موزے مگر یہ کہ جوتے نہ پائے تو ان دونوں کو کاٹ لے،یہاں تک کہ ٹخنوں کے نیچے ہوجائیں ] اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ کاٹنا موزے پہننے کے جواز کی شرط ہے اور اسی پر جمہور علما اور فقہا ہیں۔احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اسے بغیر کاٹے پہننا جائز ہے،کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث مطلق ہے،جو یہ ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہو ئے سنا: ((مَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَاراً فَلْیَلْبَسْ سَرَاوِیْلَ،وَمَنْ لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ)) [1] (متفق علیہ) [جسے تہمد میسر نہ آئے تو وہ شلوار پہن لے اور جس کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے پہن لے] ایک روایت میں ابوالشعثاء رحمہ اللہ کے طریق سے ہے کہ میں نے کہا کہ’’لِیَقْطَعْھُمَا‘‘ نہیں فرمایا؟ تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں۔[2] (رواہ أحمد)’’منتقٰی‘‘ میں فرمایا ہے کہ یہ بہ ظاہر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث’’یَقْطَعُ الْخُفَّیْنِ‘‘ کی ناسخ ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں بہ وقتِ ضرورت فرمایا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث مدینے میں تھی،جیسا کہ احمد اور دارقطنی رحمہما اللہ کی روایت میں آیا ہے۔[3]انتھیٰ۔ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا معنی یہ ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ لَمْ یَجِدْ نَعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسْ خُفَّیْنِ،وَمَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَاراً فَلْیَلْبَسْ سَرَاوِیْلَ)) [4] (رواہ أحمد ومسلم) [جو شخص جوتے نہ پائے تو وہ موزے پہن لے اور جو ازاربند نہ پائے تو وہ پاجامہ پہن لے ] ’’نیل الأوطار‘‘ میں فرمایا ہے کہ حنابلہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا جو جمہور کے نزدیک کاٹنے کے وجوب کی دلیل ہے،کئی وجہ سے جواب دیا ہے۔ایک ان میں سے نسخ کا دعویٰ ہے،جیسا کہ پہلے گزرا،اسے دارقطنی رحمہ اللہ نے ابوبکر نیشا پوری رحمہ اللہ سے حکایت کیا ہے اور شافعی رحمہ اللہ نے’’الٔام‘‘ میں فرمایا ہے کہ دونوں حافظ و صادق ہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی زیادتی ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مخالف
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۴۶۷) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۱۷۹) [2] مسند أحمد (۱/ ۲۲۸) [3] نیل الأوطار (۵/ ۵۴) [4] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۱۷۹) مسند أحمد (۱/۲۲۱)