کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 496
شخص کے لیے یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ اہلِ علم میں سے کسی نے اس حدیث کو اخذ نہیں کیا؟[1] انتھیٰ۔کلام الدراسات ملخصاً شوکانی رحمہ اللہ نے’’شرح مختصر‘‘ میں فرمایا ہے کہ دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا اگر صوری ہو تو عذر کے ساتھ جائز ہے اور یہ حقیقت میں ایک ساتھ پڑھنا نہیں ہے،کیونکہ ہر نماز اپنے وقتِ مقرر میں اداکی گئی ہے۔اسی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بغیر بارش و سفر مدینے میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنا ہے،جیسا کہ صحیح میں ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیث ہے۔بعض روایات میں اس کی صراحت آئی ہے،بلکہ خود راوی نے اس کی تفسیر’’جمع صوری‘‘ سے کی ہے۔میں نے اس کی وضاحت ایک مستقل رسالے میں کی ہے کہ دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنا عذر کی وجہ سے جائز ہے،جیسے مسافر اور بیمار کا ایک ساتھ دو نمازیں پڑھنا اور بارش بھی عذر ہے،جیسا کہ ادلہ صحیحہ اس کے بارے میں وارد ہیں۔اختلاف دو نمازوں کو بغیر عذر کے ایک ساتھ پڑھنے کے بارے میں ہے اور درست اس کا عدمِ جواز ہے۔[2] واللّٰہ أعلم۔یہ پوری بحث میں نے کتاب’’دلیل الطالب علی أرجح المطالب‘‘ میں اس کی جگہ پر مناسب تفصیل کے ساتھ ذکر کردی ہے،اسے وہیں دیکھنا چاہیے۔[3] چوبیسویں حدیث: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرض دار کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ)) [4] [اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو] (أخرجہ أحمد والبخاري والنسائي من حدیث سلمۃ بن الأکوع) اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔اس کے بعد جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے: ((مَنْ تَرَکَ مَالاً فَلِأَھْلِہِ وَمَنْ تَرَکَ دَیْناً أَوْ ضِیَاعًا فَإِلَيَّ وَعَلَيَّ)) [5] (أخرجہ مسلم والنسائي وأحمد)
[1] دراسات اللبیب (ص: ۲۵۱) [2] الدراري المضیۃ (۱/ ۷۴) [3] دلیل الطالب (ص: ۳۰۵) [4] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۱۷۳) سنن النسائي (۱۵۷۸) مسند أحمد (۳/۳۱۰) [5] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۶۷) سنن النسائي،رقم الحدیث (۱۵۷۸) مسند أحمد (۳/۳۱۰)