کتاب: مجموعہ علوم القرآن - صفحہ 494
سب کلام برسبیل نزول پر ہے،ورنہ یہ علم ہے کہ حدیثِ قول اس کے راوی حنش کی وجہ سے بہ اقرار ترمذی معلول ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ علما کی اس حدیث میں کئی تاویلات اور مذاہب ہیں۔بعض نے بار ش کے عذرسے تاویل کی ہے اور یہ کبار متقدمین کی ایک جماعت سے مشہور ہے،لیکن یہ قول دوسری روایت’’مِنْ غَیْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ‘‘ کے سبب ضعیف ہے۔بعض نے تاویل کی ہے کہ ابر میں ہو اور جب ظہر اداکرلے اور ابر دور ہو تو یہ علم ہو کہ عصر کا وقت ہوگیا ہے،پھر عصر بھی پڑھ لے۔یہ قول بھی باطل ہے،اس میں اگرچہ ظہر وعصر کے لیے کچھ احتمال ہے،لیکن مغرب و عشا اس معنی کی متحمل نہیں ہے۔بعض نے اسے جمع صوری قرار دیا ہے،یعنی پہلی کی تاخیر اور دوسری کی تعجیل،مگر یہ بھی ضعیف وباطل ہے،کیونکہ یہ ظاہر کے مخالف ہے،پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فعل،[1] ان کا اپنے فعل کی تصویب پر حدیث سے استدلال،اس کے لیے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق اور اس کا عدمِ انکار اس تاویل کی تردید میں صریح ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ بیماری وغیرہ کے عذر سے ایک ساتھ دو نمازیں پڑھنی درست ہے۔یہ احمد بن حنبل اور قاضی حسین رحمہما اللہ کا قول ہے۔خطابی،رویانی اور متولی رحمہ اللہ علیہم نے اسے مختار قرار دیاہے اور یہی ظاہر حدیث اور فعلِ ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی موافقت کی بنا پر تاویل میں مختار ہے اور ا س لیے کہ اس میں بارش سے زیادہ مشقت ہے۔[2] انتھیٰ کلام النووي۔ ان تاویلات ومذاہب کے باوجود اگر چہ ان میں بعض بعید ہیں،کیسے کہا جاسکتا ہے کہ کسی عالم نے اس پر عمل نہیں کیا؟ اگر ترمذی رحمہ اللہ کا مقصد بغیر تاویل اس کے ظاہر پر عمل ہے تو ان کا یہ قول’’ہر حدیث جو میری کتاب میں دو حدیثوں کے سوا ہے معمول بہ ہے۔‘‘ باطل ہوگا،کیونکہ ان کی کتاب
[1] عبداﷲ بن شقیق نے کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک روز ہمیں عصر کے بعد خطبہ دیا،یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے،لوگ نماز پکارنے لگے اور بنوتمیم کے ایک شخص نے کہا کہ نماز۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: تو مجھے سنت کی تعلیم دیتاہے؟ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشا ایک ساتھ پڑھی۔عبداﷲ بن شقیق نے کہا کہ اس بات سے میرے سینے میں کچھ خلش ہوئی تو میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا تو انھوں نے ان کی بات کی تصدیق کی۔(مسند أحمد: ۱/ ۲۵۱) [2] شرح صحیح مسلم (۵/ ۲۱۹)